شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی چوتھی قسط ۔
خالد سوچ سمجھ کر اپنے سوار دستے کو اس پہلو پر لایا تھا۔ اپنے باپ کی تربیت کے مطابق اسے بڑی خود اعتمادی سے توقع تھی کہ وہ ہلہ بول کر مسلمانوں کو اس پوزیشن میں لے آئے گا کہ وہ پسپا ہو جائیں گے اور اگر جم کر نہ لڑے تو قریش کے گھوڑوں تلے کچلے جائیں گے۔ مگر مسلمانوں کے پہلو سے اس کے سوار ابھی دور ہی تھے کہ اوپر سے تیر اندازوں نے اس کے اگلے سواروں کو نہ آگے جانے کے قابل چھوڑا نہ وہ پیچھے ہٹنے کے قابل رہے۔ ایک ایک سوار کئی کئی تیر کھا کر گرا اور جن گھوڑوں کو تیر لگے انہوں نے خالد کے سوار دستے کیلئے قیامت بر پا کر دی۔ پیچھے والے سواروں نے گھوڑے موڑے اور پسپا ہو گئے۔
ادھر قریش کی عورتوں نے دف اور ڈھولک کی تھاپ پر وہی گیت گانا شروع کر دیا جو ہندہ نے اکیلے گایا تھا۔ عبدالدار کے سپوتو! ہم رات کی بیٹیاں ہیں ہم تم تکیوں کے درمیان!
مؤرخ واقدی لکھتا ہے کہ عربی جنگجووں کے اس وقت رواج کے مطابق ایک ایک جنگجو کے لڑنے کا مرحلہ آیا۔ سب سے پہلے قریش کے پرچم بردار طلحہ بن ابو طلحہ نے آگے جا کر مجاہدین اسلام کو للکارا کہ اس کے مقابلے کیلئے کسی کو آ گے بھیجو۔ آ میرے دین کے دشمن! حضرت علی نے تند ہوا کے جھونکے کی طرح آ گے آ کر کہا۔ میں آ تا ہوں تیرے مقابلے کیلئے۔
طلحہ اپنے قبیلے کا پرچم تھامے تلوار لہراتے ہوئے بپھرا ہوا آ یا مگر اس کا وار ہوا کو چیرتا ہوا گزر گیا۔ وہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ حضرت علی کی تلوار نے اسے ایسا گہرا زخم لگایا کہ پہلے اس کا پرچم گرا پھر وہ خود گرا۔ قریش کا ایک آدمی دوڑا آیا اور پرچم اٹھا کر چلا گیا۔ علی اسے بھی گرا سکتے تھے مگر انفرادی مقابلوں میں یہ رواج نہ تھا۔ طلحہ کو اٹھا کر پیچھے لے آئے۔ اس کے خاندان کا ایک اور آدمی آگے بڑھا۔
میں انتقام لینے کا پابند ہوں۔ وہ للکار کر آ گے گیا۔ علی آ میری تلوار کی کاٹ دیکھ ۔ حضرت علی خاموشی سے اس کے مقابلے پر آ گئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک چکر کاٹا۔ پھر ان کی تلواریں اور ڈھالیں ٹکرائیں اور اس کے بعد سب نے دیکھا کہ حضرت علی کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے اور ان کا مدمقابل زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔
پھر قریش کے متعدد آدمی باری باری للکارتے ہوئے آگے بڑھے۔ مجاہدین کے مقابلے میں مرتے گئے۔ قریش کا سالار اعلیٰ ابو سفیان اپنے آدمیوں کو گرتا دیکھ کر غصے سے بے قابو ہو گیا۔ جنگی دستور کے مطابق اسے انفرادی مقابلے کیلئے نہیں اترنا چاہیے تھا کیونکہ کہ وہ سالار تھا۔ اس کے مارے جانے سے اس کی فوج میں ابتری پھیل سکتی تھی لیکن وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور للکارتا ہوا آگے چلا گیا۔ اس کی بیوی ہندہ نے اسے جاتے دیکھا تو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آگے چلی گئی اور بڑی بلند آواز سے وہی گیت گانے لگی۔ جس کے اشعار یہ بھی تھے کہ تم بھاگ آئے تو ہم تمہیں اپنے قریب نہیں آنے دیں گی۔ ابو سفیان گھوڑے پر سوار تھا لیکن اس کے مقابلے کیلئے جو مسلمان آگے آ یا وہ پیادہ تھا۔ تاریخ اسے حنظلہ بن ابو عامر کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ابو سفیان کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ تلوار والا ، پیادہ برچھی والے گھڑ سوار سے زندہ بچ جائے گا۔ ابو سفیان کا گھوڑا حنظلہ پر سرپٹ دوڑا آیا۔ ابو سفیان نے برچھی تول کر پھر تاک کر ماری لیکن حنظلہ پھرتی سے ایک طرف ہو گیا۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ تیسری مرتبہ ابو سفیان کا گھوڑا نکل گیا تو حنظلہ اس کے پیچھے دوڑ پڑا۔ گھوڑا رک کر پیچھے کو مڑا تو حنظلہ اس تک پہنچ چکا تھا۔ ابو سفیان اسے دیکھ نہ سکا۔ حنظلہ نے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسا زور دار وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ ابو سفیان دوسری طرف گرا۔ حنظلہ اس پر حملہ کرنے کو آگے بڑھا تو ابو سفیان گرے ہوئے گھوڑے کے ارد گرد دوڑ دوڑ کر اپنے آپ کو بچانے لگا اور اس ساتھ ہی اس نے قریش کو مدد کیلئے پکارا۔ قریش کا ایک پیادہ دوڑا آیا۔ مسلمان اس غلط فہمی میں رہے کہ یہ آدمی ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن اس نے بے اصولی کا مظاہرہ کیا پیچھے سے حنظلہ پر وار کر کے اسے شہید کر دیا۔ ابو سفیان اپنی صفوں میں بھاگ گیا۔
آخری مقابلے کیلئے قریش کی طرف سے عبد الرحمن بن ابو بکر آ یا۔ مؤ رخ واقدی نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ عبد الرحمن بن ابوبکر کی للکار پر اس کے والد حضرت ابو بکر صدیق جو اسلام قبول کر کے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ تلوار نکال کر اپنے جوان بیٹے کے مقابلے کیلئے نکلے۔
آگے آ مسلمان باپ کے کافر فرزند! حضرت ابوبکر صدیق نے للکار کر کہا۔ رسول کریمﷺ نے دیکھا کہ باپ بیٹا مقابلے پر اتر آئے ہیں تو آپﷺ نے دوڑ کر حضرت ابو بکر صدیق کو روک لیا۔ تلوار نیام میں ڈالو ابوبکر۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا اور ابوبکر صدیق کو پیچھے لے گئے۔ خالد کو جنگ کا شور وغل اب بھی سنائی دے رہا تھا۔ وہ منظر اس کی آنکھوں نے اپنی پلکوں میں محفوظ کر رکھا تھا۔ انفرادی مقابلے ختم ہوتے ہی قریش نے مسلمانوں پر ہلہ بول دیا۔ رسول اکرمﷺ نے احد کی پہاڑی کو اپنے عقب میں رکھا ہوا تھا۔ اس لیے مجاہدین اسلام کو عقبی حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ آمنے سامنے کا معرکہ خونریز تھا۔ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی تھی۔ اس کمی کو انہوں نے جذبہ تیغ زنی کے کمالات سے پورا کر دیا۔ اگر قریش کو نفری کی افراط حاصل نہ ہوتی تو وہ مسلمانوں کے آگے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ وہ نفری کے زور پر لڑ رہے تھے۔ خالد کی نظر رسول کریمﷺ پر تھی۔ آپﷺ ایک پہلو پر تھے ۔ یہی پہلو تھا کہ جس پر خالد نے حملہ کرنا تھا۔ اب کے اس نے اپنے سواروں کو یہ حکم دیا کہ وہ گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے تنگ راستے سے آگے نکل جائیں اور مسلمانوں کے پہلو پر ہلہ بولیں مگر عبداللہ بن جبیر کے پچاس تیر اندازوں نے سواروں کو اس طرح پسپا کر دیا کہ وہ چند گھوڑے اور زخموں سے کراہتے ہوئے گھڑسواروں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ معرکہ عروج پر تھا۔ صرف ایک آدمی تھا جو لڑ نہیں رہا تھا ۔ وہ میدان جنگ میں برچھی اٹھائے یوں گھوم پھر رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔ وہ وحشی بن حرب تھا۔ وہ حمزہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ حمزہ کو قتل کرنے کے اس کیلئے دو انعام تھے۔ ایک یہ کہ اس کا آقا اسے آزاد کر دے گا اور دوسرا ابو سفیان کی بیوی ہندہ کے وہ زیورات جو اس نے پہن رکھے تھے۔ اسے حمزہ نظر آگئے وہ قریش کے ایک آدمی سبا بن عبدالعزی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عرب میں رواج تھا کہ ختنہ عورتیں کیا کرتی تھیں۔ مؤ رخ ابنِ ہشام کے مطابق اسلام سے پہلے ہی عربوں میں ختنہ کا رواج موجود تھا۔ حمزہ نے جس سبا کو للکارا تھا اس کی ماں ختنہ کیا کرتی تھی۔ ختنہ کرنے والی کے بیٹے ، حمزہ نے اسے للکارا۔ ادھر آ اور مجھے آخری بار دیکھ لے۔ سبا بن عبد العزی حمزہ کی طرف بڑھا۔ غصہ سے اس کا چہرہ لال تھا۔ وہ تلوار اور ڈھال کی لڑائی کا ماہر تھا۔ حمزہ بھی کچھ کم نہ تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے اور ایک دوسرے پر وار کرنے لگے۔ دونوں کی ڈھالیں وار روک رہی تھیں۔ وہ پینترے بدل بدل کر وار کرتے تھے۔ لیکن ڈھالیں تلواروں کے راستے میں آجاتی تھیں۔
اس وقت وحشی بن حرب جھکا ہوا آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسے زمین اور جھاڑیوں نے اوٹ دے رکھی تھی۔ حمزہ اپنے دشمن کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ سبا کے سوا انہیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وحشی ان کے قریب پہنچ گیا۔ برچھی نشانے پر پھینکنے کا وہ ماہر تھا۔ وہ اتنا قریب ہو گیا جہاں سے اس کی برچھی خطا نہیں جا سکتی تھی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور برچھی کو ہاتھ میں تولا پھر اسے پھینکنے کی پوزیشن میں لایا۔ حمزہ نے سبا پر یکے بعد دیگرے تیزی سے دو تین وار کیے۔ آخری وار ایسا پڑا کہ حمزہ کی تلوار سبا کے پیٹ میں اتر گئی۔ حمزہ نے تلوار اس کے پیٹ سے اس طرح نکالی کہ اس کا پیٹ اور زیادہ پھٹ گیا اور وہ حمزہ کے قدموں میں گر پڑا۔ حمزہ ابھی سنبھلے ہی تھے کہ وحشی نے ان پر پوری طاقت سے برچھی پھینکی۔ فاصلہ بہت کم تھا۔ برچھی حمزہ کے پیٹ میں اتنی زیادہ اتر گئی کہ اس کی انی حمزہ کی پیٹھ سے آگے نکل گئی۔ حمزہ گرے نہیں۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا انہیں وحشی دکھائی دیا۔ حمزہ برچھی اپنے جسم میں لیے ہوئے وحشی کی طرف بڑھے۔ وحشی جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا۔ حمزہ چار پانچ قدم چل کر گر پڑے۔ وحشی ان کے جسم کو ہلتا جلتا دیکھتا رہا۔ جب جسم کی حرکت بند ہو گئی تو وحشی ان تک آیا۔ وہ شہید ہو چکے تھے۔ وحشی نے ان کے جسم سے برچھی نکال لی اور چلا گیا۔ اب وہ ہندہ اور اپنے آقا جبیر بن مطعم کو ڈھونڈنے لگا۔ خالد کو وہ معرکہ یاد آ رہا تھا اور اس کے دل پر بوجھ سا بڑھتا جا رہا تھا۔ اس کا گھوڑا چلا جا رہا تھا۔ وہ نشیبی جگہ سے گذر رہا تھا اس لیے احد کی پہاڑی کی چوٹی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ اسے اپنے قبیلے کی عورتیں یاد آئیں جو قریش اور ان کے اتحادی قبائل کو جوش دلا رہی تھیں۔ خالد کو یاد آیا کہ وہ معرکہ کا نظارہ کرنے کیلئے ایک بلند جگہ چڑھ گیا تھا۔ اسے مسلمان عورتیں نظر آئیں۔ مسلمان اپنے جن زخمیوں کو پیچھے لاتے تھے انہیں عورتیں سنبھال لیتی تھیں ان کی مرہم پٹی کرتیں اور انہیں پانی پلاتیں۔
مسلمانوں کے ساتھ چودہ عورتیں تھیں جن میں حضرت فاطمہ بھی تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ قلیل تعداد مجاہدین ، کثیر تعداد کفار پر غالب آگئے۔ قریش کا پرچم بردار گرا تو کسی اور نے پرچم اٹھا لیا ، وہ بھی گرا۔ پرچم کئی بار گرا۔ آخر میں ایک غلام نے پرچم اٹھا کر اونچا کیا لیکن وہ بھی مارا گیا۔پھر مسلمانوں نے قریش کو پرچم اٹھانے مہلت نہ دی۔ قریش کے جذبے جواب دے گئے۔
خالد نے ان کی پسپائی دیکھی اور یہ بھی دیکھا تھا کہ مسلمان ان کا تعاقب کر رہے ہیں۔ قریش اپنے کیمپ میں بھی نہ ٹھہرے۔ اپنا مال و اسباب چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں بھاگ گئے۔ یہاں سے جنگ کے بعد کا مرحلہ شروع ہو گیا۔ مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اور انتقامی جذبے کے تحت قریش کے کیمپ کو لوٹنا شروع کردیا۔ وہ فتح و نصرت کے نعرے لگا رہے تھے۔ قریش ایسے بوکھلا کے بھاگے کہ انہیں اپنی عورتوں کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ پیدل بھاگی جا رہی تھیں۔ لیکن مسلمانوں نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کہ بھی نہ دیکھا۔ قریش کے گھڑ سواروں کے ایک دستے کا کمانڈر عکرمہ اور دوسرے کا خالد تھا۔انہوں نے مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کرنا تھا مگر جنگ کا پانسا بری طرح پلٹ گیا تھا۔ عکرمہ اور خالد نے پھر بھی اپنے اپنے سواروں کو وہیں رکھا جہاں انہیں تیاری کی حالت میں کھڑا کیا تھا۔ خالد کو اس کیفیت میں بھی توقع تھی کہ وہ شکست کو فتح میں بدل دے گا لیکن جس راستے سے اسے گزرنا تھا وہاں مسلمان تیر انداز تیار کھڑے تھے۔ ان مسلمان تیر اندازوں نے اپنی بلند پوزیشن سے دیکھا کہ قریش بھاگ گئے ہیں اور ان کے ساتھی مال غنیمت جمع کر رہے ہیں تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگے۔ ان کے کمانڈر عبداللہ بن جبیر نے انہیں کہا کہ ، اپنے رسولﷺ کی حکم عدولی نہ کرو۔ آپﷺ کا حلم ہے کہ آپﷺ کی اجازت کے بغیر یہاں سے کوئی نہ ہٹے۔ جنگ ختم ہو گئی ہے۔
تیر انداز شور مچاتے ہوئے پہاڑی سے اترنے لگے۔ مال غنیمت، مال غنیمت۔۔۔۔ فتح ہماری ہے۔ عبداللہ بن جبیر کے ساتھ صرف نو تیر انداز رہ گئے تھے۔ خالد نے یہ منظر دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے خواب دیکھ رہا ہو۔ وہ یہی چاہتا تھا۔ وہ تیر اندازوں کو دیکھتا رہا۔ جب وہ قریش کے کیمپ میں پہنچ گئے تو اس نے اس پیاڑی(عینین)پر حملہ کر دیا جہاں پر عبداللہ بن جبیر اور ان کے نو تیر انداز رہ گئے تھے۔ خالد انہیں نظر انداز بھی کر سکتا تھا لیکن ان سے وہ انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس کے گھڑ سوار پہاڑی پر چڑھتے جا ریے تھے۔ اوپر سے تیر انداز تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔
عکرمہ نے خالد کو عینین پر حملہ کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنے سوار دستے کو وہیں لے گیا اور اس کے گھوڑے ہر طرف سے اوپر چڑھنے لگے۔۔۔۔
سواروں کے پاس بھی تیر کمانیں تھیں۔ وہ اوپر کو تیر چلا رہے تھے۔ لیکن اتنے گھڑ سواروں کو روکنا اوپر والوں کیلئے ممکن نہ تھا۔ سوار اوپر چلے گئے۔ تیر انداز دست بہ دست لڑائی بھی لڑے اور سب زخمی ہو کر گرے۔ خالد نے زخمیوں کو پہاڑی سے نیچے پھینک دیا۔ عبداللہ بن جبیر بھی شہید ہو گئے۔ وہاں سے خالد اور عکرمہ نے اپنے گھڑ سواروں کو اتارا اور اس مقام پر آ گئے جہاں سے مسلمانوں نے لڑائی کی ابتداء کی تھی۔ خالد کے حکم پر دونوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمان لڑنے کی حالت میں نہیں تھے لیکن رسول کریمﷺ نے مجاہدین کی کچھ تعداد کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ یہ مجاہدین گھڑ سواروں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔
قریش کے ساتھ جو عورتیں آئی تھیں وہ بھاگ گئی تھیں لیکن عمرہ نام کی ایک عورت وہیں کہیں چھپ گئی تھی۔ اس نے جب قریش کے گھڑ سواروں کو مسلمانوں پر حملہ کرتے دیکھا تو اسے قریش کا پرچم زمین پر پڑا نظر آ گیا۔ اس عورت نے پرچم اٹھا کر اوپر کر دیا۔ ابو سفیان نے اپنے بھاگتے ہوئے پیادوں پر قابو پا لیا تھا۔ اس نے ادھر دیکھا تو اسے اپنا پرچم ہوا نظر آ گیا۔ اس نے ہبل زندہ باد اور عزی زندہ باد کے نعرے لگائے اور پیادوں کو واپس لا کر مسلمانوں کو گھیرے میں لے لیا۔ خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ وہ رسول کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا اور آج چار برس بعد وہ مدینہ جا رہا تھا۔ اس کے ذہن پر رسول کریمﷺ کا غلبہ تھا۔
احد کی پہاڑی افق سے ابھرتی آ رہی تھی اور خالد کا گھوڑا خراماں خراماں چلا جا رہا تھا۔ خالد کی ذہنی کیفیت کچھ ایسی ہوتی جا رہی تھی جیسے اسے آ گے جانے کی کوئی جلدی نہ ہو اور کبھی وہ لگام کو یوں جھٹکا دیتا جیسے اسے بہت جلدی پہنچنا ہو، لیکن جس منزل کو وہ جا رہا تھا وہ منزل ابھی اس پر پو ری طرح واضح نہیں ہوئی تھی۔ کبھی اسے یوں لگتا جیسے ایک مقناطیسی قوت ہے جو اسے آ گے ہی آ گے کھینچ رہی ہے اور کبھی وہ محسوس کرتا جیسے اس کے اندر سے اٹھتی ہوئی ایک قوت اسے پیچھے دھکیل رہی ہے۔ خالد! اسے ایک آواز سنائی دی۔ جو اس کے اندر سے اٹھتی تھی لیکن اسے حقیقی سمجھ کر اس نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور آ گے پیچھے دیکھا وہاں ریت کے سوا کچھ بھی نہ تھا لیکن آواز آ رہی تھی۔ خالد کیا یہ سچ ہے جو میں نے سنا ہے؟ خالد نے اس آواز کو پہچان لیا۔ یہ اس کے ساتھی عکرمہ کی آواز تھی۔
جاری ہے!!!! Next Episode 5 Prevouse Episode 3
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ