شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی پانچویں قسط ۔
ایک ہی روز پہلے اسے عکرمہ کہ رہا تھا اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محمد(ﷺ) خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے یہ خیال دل سے نکال دو۔ محمد(ﷺ) ہمارے بہت سے رشتے داروں کا قاتل ہے۔ اپنے قبیلے کو دیکھ جو سورج غروب ہونے سے پہلے محمد(ﷺ) کو قتل کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہے۔ خالد نے لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور گھوڑا چل پڑا۔ اس کا ذہن پھر چار برس پیچھے چلا گیا جب وہ احد کے معرکے میں رسول کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ قریش کی اس قسم کو پورا کرنے کا عزم لیے ہوئے تھا کہ رسول اللہﷺ کو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے قتل کرنا ہے۔ اسے یاد آ رہا تھا ک مسلمانوں کے تیر اندازوں نے جب عینین کی پہاڑی چھوڑ دی تھی تو اس نے اس پہاڑی پر حملہ کر کے عبداللہ بن جبیر اور ان کے نو تیر اندازوں کو جو رسول اللہﷺ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے وہاں رہ گئے تھے ختم کیا تھا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھاگے ہوئے قریش پھر واپس آ گئے تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو منظم کر لیا تھا۔ مسلمان یہ معرکہ ہار چکے تھے اور یہ اپنے رسول اللہﷺ کی حکم عدولی کا نتیجہ تھا۔ خالد اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ فن حرب و ضرب کے ماہر تھے۔ ان کیلئے اب ایک ایک مسلمان کو قتل کرنا اب مشکل نہیں رہا تھا۔ خالد دیکھ رہا تھا کہ مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے تھے بڑا حصہ الگ تھا جو اپنے کمانڈر رسول کریمﷺ سے کٹ گیا تھا۔ چند ایک تیر انداز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ یہ وہ صحابہ کرام تھے جو قریش کے حملے کی وجہ سے افراتفری کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ان کی تعداد تیس تھی۔ ان میں ابو دجانہ، سعد بن ابی وقاص، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت ابو عبیدہ، طلحہ بن عبداللہ، مصعب بن عمیر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان چودہ خواتین میں سے جو زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے ساتھ آئیں تھیں۔ دو رسول اللہﷺ کے ساتھ تھیں۔ ایک ام عمارہ تھیں اور دوسری ام ایمن نام کی ایک حبشی خاتون تھیں۔ ام ایمن آپﷺ کے بچپن میں آپﷺ کے دایہ رہ چکی تھیں۔ باقی بارہ خواتین ابھی تک زخمیوں کو اٹھانے اور پیچھے لانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے میں مصروف تھیں۔ خالد رسول کریمﷺ کو ڈھونڈ رہا تھا لیکن وہ میدان جنگ میں زیادہ گھوم پھر نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کی کمان میں گھڑ سواروں کا ایک جیش تھا جسے اس نے پوری طرح اپنی نظم و نسق میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اندھا دھند حملے کا قائل نہ تھا۔ اس کا اصول تھا کہ دشمن کی ایسی رگ پر ضرب لگائو کہ دوسری ضرب سے پہلے وہ گھٹنے ٹیک دے۔
آج چار برس بعد جب کہ وہ تن تنہا صحرا میں جا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ اسے تیر کمانوں کے زناٹے سنائی دے رہے تھے۔ اس کے ذہن میں مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ مسلمان یہ ظاہر کرنے کیلئے نعرے لگا رہے ہیں کہ انہیں موت کا کوئی ڈر نہیں۔ طنز اور نفرت سے اب بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کرے گا۔ قیدی کم ہی بنائے گا۔ اسے ابھی پتا نہیں چل رہا تھا کہ رسول کریمﷺ کہاں ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ابو سفیان جو بھاگتے ہوئے قریش کو ساتھ لے کر واپس آ گیا تھا۔ مسلمانوں کی بڑی فوج پر حملہ آور ہو چکا تھا اور مسلمان بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں نے اسے اپنی زندگی کا آخری معرکہ سمجھ کر شجاعت و بے خوفی کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ کثیر تعداد قریش پریشان ہو گئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر خالد آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے اپنے سواروں کو مسلمانوں پر ہلہ بولنے کا حکم دے دیا۔ اس نے تلوار نیام میں ڈال لی اور برچھی ہاتھ میں لے لی۔ اس نے مسلمانوں پر عقب سے حملہ کیا۔ اس نے برچھی سے مسلمانوں کو چن چن کر مارا۔ اس کی برچھی جب کسی مسلمان کے جسم میں داخل ہوتی تو وہ چلا کر کہتا۔ میں ہوں ابو سلیمان!۔۔۔۔ ہر برچھی کے وار کے ساتھ اس کی للکار سنائی دیتی۔۔۔۔۔؛ میں ہوں ابو سلیمان؛ آج چار برس بعد جب وہ مسلمانوں کے مرکز مدینہ کی طرف جا رہا تھا تو اسے اپنی ہی للکار سنائی دے رہی تھی کہ میں ہوں ابو سلیمان ! اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اس کی برچھی کتنے مسلمانوں کے جسموں میں اتری تھی۔ وہ رسول اللہﷺ کو بھول گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے پتا چلا تھا کہ مسلمان اپنے نبیﷺ کی کمان سے نکل چکے ہیں اور عکرمہ مسلمانوں کے نبیﷺ کی طرف چلا گیا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ رسول اللہﷺ کی کمان ختم ہو چکی تھی اور معرکے کی صورت حال ایسی ہو گئی تھی کہ آپﷺ مسلمانوں کو از سر نو منظم نہیں کر سکتے تھے لیکن آپﷺ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان بچانے کیلئے میدان جنگ سے نکلنا بھی نہ چاہتےتھے۔ حالانکہ صورت حال ایسی تھی کہ پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا لیکن آپﷺ کسی بہتر پوزیشن میں جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ آپﷺ کو معلوم تھا ک قریش آپﷺ کو ڈھونڈ رہے ہوں گے اور آپﷺ کے گروہ پر بڑا شدید حملہ ہو گا۔
آپﷺ ایک پہاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ آپﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺ کو اپنے حلقے میں لے رکھا تھا۔ آپﷺ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ عکرمہ نے اپنے گھڑ سواروں سے آپﷺ پر حملہ کر دیا۔ قریش کے ایک پیادہ جیش کو کسی طرح پتا چل گیا کہ رسول کریمﷺ پر عکرمہ نے حملہ کر دیا ہے تو قریش کا یہ پیادہ جیش بھی آپﷺ کے گروہ پر ٹوٹ پڑا۔ آپﷺ کے اور آپﷺ کے کسی ایک بھی ساتھی کے بچ نکلنے کا سوال ہی ختم ہو گیا تھا۔ آپﷺ کے تیس ساتھیوں نے اور ان دو خواتین نے جو آپﷺ کے ساتھ تھیں۔ آپﷺ کے گرد گوشت پوست کی دیوار کھڑی کر دی۔ خالد کو یاد آ رہا تھا کہ رسول اللہﷺ جسمانی طاقت کے لحاظ سے بھی مشہور تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ آپﷺ نے عرب کے مانے ہوئے پہلوان رکانہ کو تین بار اٹھا اٹھا کر پٹخا تھا۔ اب میدان جنگ میں ان کی طاقت کے ایک اور مظاہرے کا وقت آ گیا تھا۔ گوشت پوست کی وہ دیوار جو آپﷺ کے فدائین نے آپﷺ کے ارد گرد کھڑی کر دی تھی اسے آپﷺ نے خود توڑا۔ آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی۔ ترکش میں تیر بھی تھے۔ اس وقت خالد مسلمانوں کے بڑے حصے میں الجھا ہوا تھا۔ اسے جب بعد میں بتایا گیا تھا کہ جب رسول اللہﷺ اور ان کے تیس ساتھی اور دو عورتیں قریش کے گھڑ سواروں اور پیادوں کے مقبلے میں جم گئے تھے تو خالد نے بڑی مشکل سے یقین کیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر کہا تھا کہ یہ طاقت جسمانی نہیں ہو سکتی، یہ کوئی اور ہی طاقت ہے۔ اس وقت سے ایک سوال اسے پریشان کر رہا تھا کہ کیا عقیدہ طاقت بن سکتا ہے ؟ وہ اپنے قبیلے میں کسی سے اس سوال کا جواب نہیں لے سکتا تھا کیونکہ فوراً یہ الزام عائد ہو سکتا تھا کہ اس پر بھی محمد (ﷺ) کا جادو اثر کر گیا ہے۔ آج وہ یہی سوال اپنے ذہن میں لیے مدینہ کی طرف جا رہا تھا احد کی پہاڑی افق سے اوپر اٹھ آئی تھی۔ چار برس پرانی یادیں اسے پھر اس پہاڑی کے دامن میں لے گئیں جہاں اسے اپنا ہی نام سنائی دے رہا تھا۔ ابو سلیمان، ابو سلیمان! وہ اپنے تصور میں دیکھنے لگا کہ ان تیس آدمیوں اور دو عورتوں نے اتنے سارے گھڑ سواروں اور پیادوں کا مقابلہ کس طرح کیا ہو گا۔ رسول کریمﷺ اپنے دست مبارک سے تیر برسا رہے تھے۔ آپﷺ کے ساتھی بڑھ چڑھ کر آپﷺ کو اپنے حلقے میں لے لیتے۔ ایک مؤرخ مغازی کی تحریر کے مطابق آپﷺ اپنے گرد حلقے کو بار بار توڑتے اور جدھر سے دشمن ان کی طرف بڑھتا اس پر تیر چلاتے۔ آپﷺ کی جسمانی طاقت عام انسان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
آپﷺ کمان کو اس قدر زور سے کھینچتے تھے کہ آپﷺ کا چھوڑا ہوا تیر جس جسم میں لگتا تھا تیر کی نوک اس جسم کے دوسری طرف نکل جاتی تھی۔ آپﷺ نے اس قدر تیر چلائے تھے ایک تیر چلانے کیلئے آپﷺ نے کمان کو کھینچا تو کمان ٹوٹ گئی۔ آپﷺ نے اپنے ترکش میں بچے ہوئے تیر سعد بن ابی وقاص کو دے دیے۔ سعد بن ابی وقاص کے نشانے کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ خود آپ ﷺ سعد رضی اللہ تعالی عنہ کے نشانے کو تسلیم کرتے تھے۔ خود آپﷺ بھی سعد کے نشانے کو تسلیم کرتے تھے۔ ادھر مسلمان ابو سفیان اور خالد کے ہاتھوں کٹ رہے تھے اور خون کا آخری قطرہ بہہ جانے تک مقابلہ کر رہے تھے۔ ادھر آپﷺ کے تیس فدائین اور دو خواتین کی بے جگری کا یہ عالم تھا جیسے ان کے جسم نہیں ان کی روحیں لڑ رہی ہوں۔ مشہور مؤ رخ طبری لکھتا ہے کہ ایک ایک مسلمان نے بیک وقت چار چار پانچ پانچ قریش کا مقابلہ کیا۔ ان کا انداز ایسا دہشت ناک تھا کہ قریش پیچھے ہٹ جاتے تھے یا ان پر حملہ کرنے والا اکیلا مسلمان زخموں سے چور ہو کر گر پڑتا تھا۔ قریش نے جب رسول اکرمﷺ کے فدائین کی شجاعت کا یہ عالم دیکھا تو کچھ پیچھے ہٹ کر ان پر تیروں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی برسانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی قریش کے چند ایک گھڑ سوار سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے آپﷺ پر حملہ آور ہوئے لیکن آپﷺ کے ساتھیوں کے تیر ان کے جسموں میں اتر کر انہیں واپس چلے جانے پر مجبور کر دیتے تھے۔ اس صورت حال سے بچنے کیلئے قریش نے چاروں طرف سے تیروں اور پتھروں کا مینہ برسا دیا۔
خالد کو عکرمہ نے بتایا تھا کہ ، ابو دجانہ، محمد (ﷺ) کے آگے جا کھڑے ہوئے۔ ان کی پیٹھ دشمن کی طرف تھی۔ ابو دجانہ بیک وقت دو کام کر رہے تھے ایک یہ کہ وہ اپنے تیر سعد بن ابی وقاص کو دیتے جا رہے تھے اور سعد بڑی تیزی سے تیر برسا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ابو دجانہ محمد (ﷺ) کو تیروں سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تیروں اور پتھروں کی بارش میں کوئی نہ دیکھ سکا کہ ابو دجانہ کس حال میں ہے۔ جب ابو دجانہ گر پڑے تو اس وقت دیکھا کہ ان کی پیٹھ میں اتنے تیر اتر گئے تھے کہ ان کی پیٹھ خار پشت کی پیٹھ لگ رہی تھی۔ رسول اکرمﷺ کو بچانے کیلئے آپﷺ کے کئی ساتھیوں نے جان دے دی۔ لیکن عکرمہ اور اس کے گھڑ سواروں اور پیادوں پر اتنی دہشت طاری ہو چکی تھی کہ وہ پیچھے ہٹ گئے تھے۔ قریش تھک بھی گئے تھے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے ساتھیوں کا جائزہ لیا۔ ہر طرف خون ہی خون تھا لیکن زخمیوں کو اٹھانے اور مرہم پٹی کرنے کا موقع نہ تھا۔ دشمن ایک اور ہلہ بولنے کیلئے پیچھے ہٹا تھا۔
مجھے قریش کے ایک اور آدمی کا انتظار ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ کون ہے وہ یا رسول اللہﷺ، آپﷺ کے ایک صحابی نے پوچھا۔ کیا وہ ہماری مدد کو آ رہا ہے ؟ ،، نہیں! آپﷺ نے فرمایا۔ وہ مجھے قتل کرنے آئے گا، اسے اب تک آ جانا چاہیے تھا۔ ،،صحابی نے پوچھا لیکن وہ ہے کون؟،، ابی بن خلف!
آپﷺ نے فرمایا۔ ابی بن خلف، رسول اکرمﷺ کے کٹر مخالفین میں سے تھا۔ وہ مدینہ کا رہنے والا تھا۔ اسے جب پتا چلا کہ رسول اللہﷺ نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو ایک روز وہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپﷺ کا مزاق اڑایا۔ آپﷺ نے تحمل اور بردباری سے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ کیا تم مجھے اتنا کمزور سمجھتے ہو کہ میں تمہارے اس بے بنیاد عقیدے کو قبول کر لوں گا۔ ابی بن خلف نے گستاخانہ لہجے میں کہا تھا۔ میری بات غور سے سن لے محمد، کسی روز میرا گھوڑا دیکھ لینا اسے میں اس وقت کیلئے موٹا تازہ کر رہا ہوں جب تم قریش کو پھر کبھی جنگ کیلئے للکارو گے۔ اب بدر کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ میں اسے گھوڑے پر سوار ہوں گا اور تم مجھے میدان جنگ میں اپنے سامنے دیکھو گے اور میں اپنے دیوتاؤں کی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گا۔ ابی! رسول خداﷺ نے مسکرا کہ کہا تھا۔ زندگی اور موت اس اللہ کے اختیار میں ہے جس نے مجھے نبوت عطا فرمائی ہے اور مجھے گمراہ لوگوں کو سیدھے راستے پر لانے کا فرض سونپا ہے، ایسی بات منہ سے نہ نکالو جسے میرے اللہ کے سوا کوئی بھی پورا نہ کر سکے۔ یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے آؤ اور تم میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤ۔
ابی بن خلف رسول اللہﷺ کی اس بات پر طنزیہ ہنسی ہنس پڑا اور ہنستا ہوا چلا گیا۔ اب احد کے معرکے میں رسول خدا ﷺ کو ابی بن خلف یاد آ گیا۔ جوں ہی آپﷺ نے اس کا نام لیا تو دور سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا۔ سب نے ادھر دیکھا۔ میرے عزیز ساتھیو ! اور ہنستا ہوا چلا گیارسول اکرمﷺ نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ مجھے کچھ ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ سوار جو ہماری طرف بڑھتا آ رہا ہے ابی ہی ہو گا۔ اگر وہ ابی ہی ہوا تو اسے روکنا نہیں ، اسے میرے سامنے اور میرے قریب آنے دینا۔ مؤرخین واقدی، مغازی اور ابن ہشام نے لکھا ہے کہ وہ سوار ابی بن خلف ہی تھا۔ اس نے للکار کر کہا کہ : سنبھل جا محمد ! ابی آگیا ہے۔ یہ دیکھ میں اسی گھوڑے پر سوار ہوں جو تمہیں دکھایا تھا۔ یا رسول اللہﷺ ! رسول اللہﷺ کے ساتھیوں میں سے تین چار نے آگے ہو کر کہا۔ ہمیں اجازت دیں کہ اسے آپﷺ کے قریب آنے تک ختم کر دیں۔ نہیں رسول اکرمﷺ نے کہا۔ اسے آنے دو، میرے قریب آنے دو ، اسے راستہ دے دو۔
رسول کریمﷺ کے سر پر زنجیروں والی خود تھی۔ اس کی زنجیریں آپﷺ کے چہرے کے آگے اور دائیں بائیں لٹک رہی تھیں۔ آپﷺ کے ہاتھ میں برچھی تھی اور تلوار نیام میں تھی۔ ابی کا گھوڑا قریب آ گیا تھا۔ آگے آجا ابی ! رسول خداﷺ نے للکار کر کہا۔ میرے سوا تیرے ساتھ کوئی نہیں لڑے گا۔ ابی بن خلف نے اپنا گھوڑا قریب لا کہ روکا اور طنزیہ قہقہہ لگایا اسے شاید پورا یقین تھا کہ وہ آپﷺ کو قتل کر دے گا۔ اس کی تلوار ابھی نیام میں تھی۔ آپﷺ اس کے قریب چلے گئے، وہ بڑے طاقتور گھوڑے پر تھا اور آپﷺ زمین پر۔ اس نے ابھی تلوار نکالی ہی تھی کہ آپﷺ نے آگے بڑھ کر اور اچھل کر اس پر برچھی کا وار کیا، وہ وار بچانے کیلئے ایک طرف کو جھک گیا لیکن وار خالی نہ گیا۔ آپﷺ کی برچھی کی انی اس کے دائیں کندھے پر ہنسلی کی ہڈی سے نیچے لگی۔ وہ گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی پسلی ٹوٹ گئی۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسول خداﷺ کا وار اتنا کاری نہ تھا کہ ابی جیسا قوی ہیکل آدمی اٹھ نہ سکتا۔ رسول خداﷺ اس پر دوسرا وار کرنے کو دوڑے۔ وہ گھوڑے کے دوسری طرف گرا تھا اس پر شاید دہشت طاری ہو گئی تھی یا آپﷺ کا وار اس کیلئے غیر متوقع تھا، وہ اٹھا اور اپنا گھوڑا وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا، وہ چلاتا جا رہا تھا محمد نے مجھے قتل کر دیا ہے۔ اے اہل قریش ! محمد نے مجھے قتل کر ڈالا۔ قریش کے کچھ آدمیوں نے اس کے زخم دیکھے تو اسے تسلی دی کہ اسے کسی نے قتل نہیں کیا۔ زخم بلکل معمولی ہیں۔ لیکن اس پر نہ جانے کیسی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ اس کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے۔ میں زندہ نہیں رہوں گا ، محمد نے کہا تھا کہ میں اس کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں گا۔ مؤرخ ابنِ ہشام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ابی نے یہ الفاظ بھی کہے تھے کہ : اگر محمد مجھ پر صرف تھوک دیتا تو بھی میں زندہ نہ رہ سکتا تھا۔
جب احد کا معرکہ ختم ہو گیا تو ابی قریش کے ساتھ مکہ روانہ ہو گیا۔ راستے میں انہوں نے پڑاؤ کیا تو ابی مر گیا۔ خالد کو آج چار برس بعد وہ وقت کل کی بات کی طرح یاد آرہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ مسلمانوں کو اہل قریش کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن مسلمان جس طرح جانیں قربان کر رہے تھے اس نے خالد کو پریشان کر دیا۔ یوں لگتا تھا جیسے مسلمان پیادوں سے قریش کے گھوڑے بھی خوف زدہ ہیں۔ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس خونریز معرکے میں ابو سفیان کو تلاش کرتا اس تک پہنچا۔ کیا ہم مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے قابل نہیں رہے ؟ خالد نے ابو سفیان سے کہا۔ کیا قریش کی ماؤں کے دودھ ناقص تھے کہ یہ ان مٹھی بھر مسلمانوں سے خوف زدہ ہوئے جا رہے ہیں؟
دیکھو خالد! ابو سفیان نے کہا۔ جب تک محمد ان کے ساتھ ساتھ ہے اور وہ زندہ سلامت ہے یہ خون کا آخری قطرہ بہہجانے تک شکست نہیں کھائیں گے۔ تو یہ فرض مجھے کیوں نہیں سونپ دیتے؟ خالد نے کہا۔ نہیں! ابو سفیان نے کہا۔ تم اپنے سواروں کے پاس جاؤ ، تمہاری قیادت کے بغیر وہ بکھر جائیں گے۔ محمد اور اسکے ساتھیوں پر حملہ کرنے کیلئے میں پیادے بیج رہا ہوں۔ آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو افسوس ہو رہا تھا کہ ابو سفیان نے اس کے ایک عزم کو کچل ڈالا تھا۔ رسول خداﷺ کے قتل کو وہ اپنا فوض سمجھتا تھا۔ وہ رسول خداﷺ کو قتل کر کے اپنے سب سے بڑے دیوتاؤں ہبل اور عزی کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے سالار کا حکم ماننا ضروری سمجھا اور اپنے سوار دستے کی طرف چلا گیا۔ اسے اطمینان ضرور تھا کہ رسول اکرمﷺ کے ساتھ اب چند ایک ساتھی ہی رہ گئے ہوں گے اور آپﷺ کو قتل کرنا اب کوئی مشکل نہیں ہو گا اور اس کے بعد مسلمان اٹھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ خالد کو میدان جنگ کی کیفیت بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ اس نے ذرا بلندی سے دیکھا تھا کہ احد کے دامن میں دور دور تک زمین خون سے لال ہو گئی تھی۔ کہیں گھوڑے تڑپ رہے تھے اور کہیں خون میں نہائے ہوئے انسان کراہ رہے تھے۔ زخمیوں کو اٹھانےکا ابھی کسی کو ہوش نہ تھا۔ پھر اس نے دیکھا۔ پیادہ قریش رسول کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے اور انہوں نے آپﷺ کے ساتھیوں کا حلقہ بھی توڑ لیا تھا۔ قریش کے تین آدمی عتبہ بن ابی وقاص، عبداللہ بن شہاب اور ابن قمہ رسول کریمﷺ پر پتھر برسانے لگے۔ عجیب صورت یہ تھی کہ عتبہ کا سگا بھائی سعد بن ابی وقاص رسول اکرمﷺ کی حفاظت میں لڑ رہا تھا۔
جاری ہے!!!! Next Episode 6 Prevouse Episode 4
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ