شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی چھٹی قسط ۔
رسول اکرمﷺ کے ساتھیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی. یا وہ لڑتے لڑتے بکھر گئے تھے۔ عتبہ نے آپﷺ پر جو پتھر برسائے ان سے آپﷺ کے نیچے والے دو دانت ٹوٹ گئے اور نچلا ہونٹ زخمی ہو گیا۔ عبداللہ کے پتھر سے آپﷺ کی پیشانی پر خاصا گہرا زخم آیا۔ ابن قمہ نے آپﷺ کے قریب آکر اتنی زور سے پتھر مارا کہ آپﷺ کے خود کی زنجیر کی دو کڑیاں ٹوٹ کر رخسار میں اتر گئیں ان سے رخسار کی ہڈی بھی بری طرح مجروح ہوئی۔ آپﷺ نے برچھی سے دشمنوں پر وار کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن دشمن قریب نہیں آتے تھے۔ آپﷺ کا خون اتنا نکل گیا تھا کہ آپﷺ گر پڑے۔ اس وقت آپﷺ کے ایک صحابی طلحہ نے جو قریش کے دوسرے آدمیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے دیکھ لیا اور دوڑتے ہوئے آپﷺ تک پہنچے۔ ان کی للکار پر ان کے دوسرے ساتھی بھی آگئے۔
shamsheer e beniyam
آپﷺ کو پتھروں سے گرانے والے قریش آپﷺ پر تلواروں سے حملہ کرنے ہی والے تھے کہ سعد بن ابی وقاص نے اپنے سگے بھائی عتبہ پر حملہ کر دیا۔ عتبہ اپنے بھائی کا غیض و غضب دیکھ کر بھاگ نکلا۔
طلحہ نے رسول خداﷺ کو سہارا دے کر اٹھایا۔ آپﷺ پوری طرح سے ہوش میں تھے اس دوران آپﷺ کے ساتھیوں نے ان آدمیوں کا بھگا دیا تھا جنہوں نے رسول کریمﷺ پر حملہ کیا تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ: سعد بن ابی وقاص پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا ، سعد کہتے تھے میں اپنے بھائی کو قتل کر کے اس کے جسم کے ٹکڑے کر دینا چاہتا ہوں جس نے میری موجودگی میں میرے نبیﷺ پر حملہ کیا ہے۔ وہ اکیلے ہی قریش کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتے تھے انہیں بڑی مشکل سے روکا گیا اگر رسول خداﷺ انہیں رکنے کا حکم نہ دیتے تو وہ کبھی نہ رکتے۔ قریش غالباً بہت ہی تھک گئے تھے۔ وہ معرکے سے منہ موڑ گئے، تب رسول اکرمﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺ کے زخموں کی طرف توجہ دی۔ جو خواتین آپﷺ کے ساتھ تھیں انہوں نے آپﷺ کو پانی پلایا ، کپڑوں سے زخم صاف کیے، اس وقت یہ دیکھا گیا کہ خود کی زنجیروں کی ٹوٹی ہوئی کڑیاں آپﷺ کے رخسار کی ہڈی میں اتری ہوئی ہیں۔ ایک صحابی ابو عبیدہ جو عرب کے ایک مشہور جراح کے فرزند تھے آگے بڑے اور آپﷺکے رخساروں سے کڑیاں نکالنے لگے لیکن ہاتھوں سے کڑیاں نہ نکلیں۔ آخر ابو عبیدہ نے دانتوں کی مدد سے ایک کڑی نکال لی۔ جب دوسری کڑی نکالی تو کڑی تو نکل آئی لیکن ابو عبیدہ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے ابو عبیدہ کو الاثرم کہنا شروع کر دیا۔ اس کا مطلب ہے وہ آدمی جس کے سامنے والے دانت نہ ہوں۔ پھر وہ اسی نام سے مشہور ہو گئے۔( یہ بھی رسول کریمﷺ کا معجزہ ہے کہ اس کے بعد ابو عبیدہ ایسے خوبصورت دکھتے تھے کہ ان کے چہرے سے نگاہ نہیں ہٹتی تھی)۔ ام ایمن جو رسول اکرمﷺ کے بچپن میں آپﷺ کی دایہ رہ چکی تھیں ، آپﷺ پر جھکی ہوئی تھیں۔ اس وقت تک آپﷺ کی طبعیت سنبھل چکی تھی۔ اچانک ایک تیر ام ایمن کی پیٹھ میں اتر گیا اور اس کے ساتھ ہی دور سے ایک قہقہہ سنائی دیا۔ سب نے ادھر دیکھا تو قریش کا ایک آدمی حبان بن العرقہ دور کھڑا ہنس رہا تھا اس کے ہاتھ میں کمان تھی۔ یہ تیر اسی نے چلایا تھا۔ وہ ہنستا ہوا پیچھے کو مڑا ، رسول خداﷺ نے ایک تیر سعد بن ابی وقاص کو دے کر کہا کہ: یہ شخص یہاں سے تیر لے کر ہی واپس جائے۔
shamsheer e beniyam
سعد نے جو تمام قبائل میں تیر اندازی میں خصوصی شہرت رکھتے تھے، کمان میں تیر ڈال کر حبان پر چلایا، تیر حبان کی گردن میں اتر گیا۔ سعد کے تمام ساتھیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور حبان نے ڈگمگاتے ہوئے چند قدم اٹھائے اور وہ گر پڑا۔ آج خالد جب مدینہ کی طرف بڑھتا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی افق سے اوپر ہی اوپر اٹھتی آ رہی تھی۔ اسے اپنے کچھ ساتھی یاد آنے لگے۔ عقیدوں کے اختلاف نے بھائی بھائی کو دشمن بنا دیا تھا لیکن خالد کو یہ خیال بھی آیا کہ بعض لوگ اپنے عقیدے کو اس لیے سچا سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے پیروکار ہوتے ہیں۔ حق اور باطل کے فرق کو سمجھنے کیلئے بڑی مظبوط شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سوال اسے پھر پریشان کرنے لگا : میں مدینہ کیوں جا رہا ہوں ؟ اپنا عقیدہ مدینہ والوں پر ٹھونسنے کیلئے یا ان کا عقیدہ اپنے اوپر مسلط کرنے کیلئے ؟ اسے ابو سفیان کی آواز سنائی دی جو ایک ہی روز پرانی تھی۔ کیا یہ سچ ہے کہ تم مدینہ جا رہے ہو؟ کیا تمہاری رگوں میں ولید کا خون سفید ہو گیا ہے؟
shamsheer e beniyam
صحرا میں جاتے ہوئے ان آوازوں نے کچھ دور تک اس کا تعاقب کیا پھر وہ اپنے ان دوستوں کی یاد میں کھو گیا جن کے خلاف وہ لڑا اور جن کا خون اس کے سامنے بہہ گیا تھا۔ ان میں ایک مصعب بن عمیر بھی تھے۔ قریش جو معرکے سے منہ موڑ گئے تھے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کو جا پکڑا۔ اس نے ابو سفیان سے پوچھا کہ : تم لوگ جنگ کو ادھورا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ مسلمانوں کا دم خم ختم ہو چکا ہے؟ ابو سفیان بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ معرکہ فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے۔ قریش کے چند سوار وہیں سے پلٹ آئے۔ خالد دیکھ چکا تھا کہ رسول کریمﷺ کہاں ہیں۔ یہاں پھر ابو سفیان نے خالد کو کسی اور طرف بھیج دیا اور کچھ آدمیوں کو نبی کریمﷺ پر حملے کا حکم دیا۔ اب رسول کریمﷺ کے ساتھ کچھ اور مسلمان آن ملے تھے۔ اب پھر ابن قمہ لڑتے ہوئے مسلمانوں کا حلقہ توڑ کر رسول اکرمﷺ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت رسول اکرمﷺ کے پاس مصعب بن عمیر کھڑے تھے اور ام عمارہ اپنے قریب پڑے ہوئے دو تین زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ انہوں نے جب قریش کو ایک بار پھر حملے کیلئے آتے دیکھا تو زخمیوں سے ہٹ کر انہوں نے ایک زخمی کی تلوار اٹھا لی اور قریش کے مقبلے کیلئے ڈٹ گئیں۔ قریش کا سب سے پہلا سوار جو ان کے قریب آیا۔ اس تک وہ نہیں پہنچ سکتی تھیں اس لیے انہوں نےتلوار سے اس کے گھوڑے پر ایسا وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ سوار گھوڑے کے دوسری طرف گرا۔ ام عمارہ نے گھوڑے کے اوپر سے کود کر قریش کے اس آدمی پر وار کیا اور اسے زخمی کر دیا۔ وہ اٹھا اور بھاگ کھڑا ہوا۔
shamsheer e beniyam
مصعب بن عمیر کا قد بت اور شکل و صورت بھی رسول کریمﷺ کے ساتھ نمایاں مشابہت رکھتی تھی۔ ابن قمہ مصعب کو رسول خداﷺ سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا۔ مصعب تیار تھے انہوں نے ابن قمہ کا مقبلہ کیا پھر دونوں میں تیغ زنی ہوئی لیکن ابن قمہ کا ایک وار مصعب پر ایسا بھرپور پڑا کہ وہ گرے اور شہید ہو گئے۔ (مصعب بن عمیر بہت لاڈوں میں پلے جوان تھے لیکن تدفین کے وقت ان کا کفن بھی ادھورا تھا)ام عمارہ نے مصعب کو گرتے دیکھا۔ غیض و غضب سے ابن قمہ پر تلوار کا وار کیا لیکن ابن قمہ نے زرہ پہن رکھی تھی اور وار کرنے والی ایک عورت تھی ، اس لیے ابن قمہ کو کوئی زخم نہ آیا۔ ابن قمہ نے ام عمارہ کے کندھے پر بھرپور وار کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑیں۔ اس وقت رسول کریمﷺ جو قریب ہی تھے۔ ابن قمہ کی طرف بڑے لیکن ابن قمہ نے پینترا بدل کر آپﷺ پہ ایسا وار کیا جو آپﷺ کے خود پر پڑا۔ تلوار خود سے پھسل کر آپﷺ کے کندھے پر لگی آپﷺ کے بلکل پیچھے ایک گڑھا تھا آپﷺ زخم کھا کر پیچھے ہٹے اور گڑھے میں گر پڑے۔ ابن قمہ نے پیچے ہٹ کر گلا پھاڑ کر کہا : میں نے محمد کو قتل کر دیا ہے۔ وہ یہی نعرے لگاتا میدان جنگ میں گھوم گیا۔ اس کی آواز قریش نے بھی سنی اور مسلمانوں نے بھی۔ قریش کو تو خوش ہونا ہی تھا۔
مسلمانوں پر اس کا بڑا تباہ کن اثر ہوا کہ حوصلہ ہار بیٹھے اور احد کی پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے۔ اپنے نبیﷺ کے شدائیو! بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو ایک للکار سنائی دی۔ اگر نبیﷺ نہ رہے تو لعنت ہے ہم پر کہ ہم بھی زندہ رہیں۔ تم کیسے شیدائی ہو کی نبی کریمﷺکی شہادت کے ساتھ ہی تم موت سے ڈر کر بھاگ رہے ہو؟ مسلمان رک گئے۔ اس للکار نے انہیں آگ بگولہ کر دیا، وہ پیادہ تھے لیکن انہوں نے قریش کے گھڑسواروں پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ خالد اور عکرمہ کے گھڑسواروں پر ہوا تھا۔ خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس کے ہاتھوں کتنے ہی مسلمانوں کا خون بہہ گیا تھا ان میں ایک رفاعہ بن وقش بھی تھے۔ خالد کے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی ، اسے کچھ ایسا احساس ہونے لگا جیسے وہ بےمقصد خون بہاتا رہا ہے لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کو اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا۔ اب مسلمانوں کا دم خم ٹوٹ چکا تھا۔ پیادے گھڑسواروں کا مقبلہ کب تک کرتے ؟ وہ مجبور ہو کر پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے۔ رسول اکرمﷺ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تنگ سی وادی کی طرف جا رہے تھے۔ جس طرح مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اپنا مورچہ چھوڑ دیا تھا اور جنگ کا پانسا اپنے خلاف پلٹ لیا تھا اسی طرح اب قریش کے آدمی مسلمانوں کی لاشوں پر اور تڑپتے ہوئے زخمیوں پر مال غنیمت اکٹھا کرنے کیلئے ٹوٹ پڑے۔
shamsheer e beniyam
ان میں سے کچھ قریش رسول کریم ﷺ کے تعاقب میں چلے گئے ، لیکن آپﷺ کے ساتھیوں نے ان پر ایسی بے جگری سے ہلہ بولا کہ ان میں سے زیادہ تر قریش کو جان سے مار ڈالا اور جو بچ گئے وہ بھاگ نکلے۔ رسول اکرمﷺ ایک بلند جگہ پر پہنچ گئے۔ آپﷺ نے وہاں سے صورت حال کا جائزہ لیا ، آپﷺ کے تیس صحابہ میں سے سولہ شہید ہو چکے تھے جو چودہ زندہ تھے ان میں زیادہ تر زخمی۔ آپﷺ نے بلندی سے میدان جنگ کا جائزہ لیا آپﷺ کو کوئی مسلمان نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسلمان یہ سمجھ کر کہ رسول اکرمﷺ شہید ہو چکے ہیں ، سخت مایوسی کے عالم میں ادھر ادھر بکھر گئے۔ کچھ واپس مدینہ چلے گئے۔ کچھ قریش کے انتقام سے بچنے کیلئے پہاڑی کے اندر موجود تھے۔ یہاں رسول خداﷺ کو اپنے زخموں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملی۔ آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ جو آپﷺ کو ہر طرف تلاش کر کر کے تھک چکی تھیں۔ آپﷺ کے پاس آ پہنچی تھیں۔ قریب ہی ایک چشمہ تھا۔ حضرت علی وہاں سے کسی چیز میں پانی لائے اور آپﷺ کو پلایا۔ حضرت فاطمہ آپﷺ کے زخم دھونے لگیں۔ وہ سسک سسک کر رو رہی تھیں۔ خالد کو آج یاد آ رہا تھا کہ رسول کریمﷺ کی شہادت کی خبر نے اسے روحانی سا اطمینان دیا تھا لیکن ایک للکار نے اسے چونکا دیا۔ وادی میں للکار کی گونج بڑی دور تک سنائی دے رہی تھی۔ کوئی بڑی ہی بلند آواز میں کہہ رہا تھا: مسلمانو! خوشیاں مناؤ۔ ہمارے نبیﷺ زندہ اور سلامت ہیں۔ اس للکار پر خالد کو ہنسی بھی آئی تھی اور افسوس بھی ہوا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا تھا کہ کوئی مسلمان پاگل ہو گیا ہے۔ ہوا یوں تھا کہ جس طرح مسلمان اکا دکا ادھر ادھر بکھر گئے یا چھپ گئے تھے۔ اسی طرح کعب بن مالک نام کا ایک مسلمان ادھر ادھر گھومتا پہاڑی کے اس مقام کی طرف چلا گیا جہاں رسول اکرمﷺ سستا رہے تھے۔ اس نے نبی کریمﷺ کو دیکھا تو اس نے جزبات کی شدت سے نعرہ لگایا ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں۔ تمام مسلمان جو اکیلے اکیلے یا دو دو چار چار کی ٹولیوں میں ادھر ادھر بکھر گئے تھے اس آواز پر دوڑ کر آئے۔ حضرت عمر بھی اسی آواز پر رسول خداﷺ تک پہنچے تھے۔ اس سے پہلے ابو سفیان میدان جنگ میں پڑی ہوئی ہر ایک لاش کو دیکھتا پھر رہا تھا، وہ رسول کریمﷺ کا جسد مبارک تلاش کر رہا تھا۔ اسے قریش کا جو بھی آدمی ملتا اس سے پوچھتا: تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟ اسی تلاش میں خالد اس کے سامنے آگیا۔ خالد! ابو سفیان نے پوچھا: تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟ ںہیں۔ خالد نے جواب دیا اور ابو سفیان کی طرف زرا جھک کر پوچھا : کیا تمہیں یقین ہے کہ محمد(ﷺ) قتل ہو چکا ہے؟
shamsheer e beniyam
ہاں! ابو سفیان نے جواب دیا: وہ ہم سے بچ کر کہاں جا سکتا ہے۔ تمہیں شک ہے؟ ہاں ابو سفیان! خالد نے جواب دیا۔ میں اس وقت تک شک میں رہتا ہوں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں۔ محمد (ﷺ) اتنی آسانی سے قتل ہو جانے والا شخص نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم پر محمد(ﷺ) کا طلسم طاری ہے۔ ابو سفیان نے تکبر کے لہجے میں کہا۔ کیا محمد (ﷺ) ہم میں سے نہیں تھا ؟ کیا تم اسے نہیں جانتے تھے۔ جو شخص اتنی قتل و غارت کا ذمہ دار ہے۔ ایک روز اسے بھی قتل ہونا ہے۔ محمد(ﷺ) قتل ہو چکا ہے۔ جاؤ اور دیکھو، اس کی لاش کو پہچانو۔ ہم اس کا سر کاٹ کر مکہ لے جائیں گے۔ عین اس وقت پہاڑی میں سے کعب بن مالک کی للکار گرجی مسلمانو! خوشیاں مناؤ۔ ہمارے نبیﷺ زندہ سلامت ہیں۔ پھر یہ آواز بجلی کی کڑک کی طرح گرجتی کڑکتی وادی اور میدان میں گھومتی پھرتی رہی۔
shamsheer e beniyam
سن لیا ابو سفیان! خالد نے کہا۔ اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ محمد(ﷺ) کہاں ہے۔ میں اس پر حملہ کرنے جا رہا ہوں لیکن میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتا کہ میں محمد(ﷺ) کو قتل کر آؤں گا۔ کچھ دیر پہلے خالد نے رسول کریمﷺ اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑی کے اندر جاتے دیکھا تھا لیکن وہ بہت دور تھا۔ خالد ہار ماننے والا اور اپنے اردے کو ادھورا چھوڑنے والا آدمی نہیں تھا۔ اس نے اپنے چند ایک سواروں کو اپنے ساتھ لیا اور پہاڑی کے اس مقام کی طرف بڑھنے لگا جدھر اس نے رسول کریم ﷺ کو جاتے دیکھا تھا۔ مشہور مؤرخ ابن ہشام کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے جب خالد کو اپنے سواروں کے ساتھ اس گھاٹی پر چڑھتے دیکھا جہاں آپﷺ تھے تو آپﷺ کے منہ سے بے ساختہ دعا نکلی خدائے ذوالجلال! انہیں اس وقت وہیں کہیں روک لے۔
خالد اپنے سواروں کے ساتھ گھاٹی چڑھتا جا رہا تھا۔ وہ ایک درہ سا تھا جو تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ گھوڑوں کو ایک قطار میں ہونا پڑا۔ رسول کریمﷺ زخموں سے چور پڑے تھے۔ حضرت عمر نے جب خالد اور اس کے سواروں کو اوپر آتے ہوئے دیکھا تو وہ تلوار نکال کر کچھ نیچے اترے۔ ولید کے بیٹے! حضرت عمر نے للکارا۔ اگر لڑائی لڑنا جانتے ہو تو اس درہ کی تنگی کو دیکھ لو۔ اس چڑھائی کو دیکھ لو۔ کیا تم اپنے سواروں کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے بچ کر نکل جاؤ گے ؟ خالد لڑنے کے فن کو خوب سمجھتا تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ جگہ گھوڑوں کو گھما پھرا کر لڑانے کیلئے موزوں نہیں ہے بلکہ خطرناک ہے۔ خالد نے خاموشی سے اپنا گھوڑا گھمایا اور اور اپنے سواروں کے ساتھ وہاں سے نیچے اتر آیا۔
shamsheer e beniyam
جنگ احد ختم ہو چکی تھی۔ قریش اس لحاظ سے برتری کا دعوی کر سکتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا لیکن یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ لیکن یہ ہماری شکست تھی۔ خالد کو جیسے اپنی آواز سنائی دی۔
مسلمانوں کی نفری سات سو تھی اور ہم تین ہزار تھے۔ ہمارے پاس دو سو گھوڑے تھے۔ ہماری فتح تب ہوتی جب ہم محمد(ﷺ) کو قتل کر دیتے۔ خالد نے اپنے آپ میں جھنجھناہٹ محسوس کی۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ اسے جنگ کا آخری منظر یاد آنے لگا تھا۔ اس نے اس بھیانک یاد کو ذہن سے نکالنے کیلئے سر کو جھٹکا دیا لیکن مکھیوں کی طرح یہ یاد اس کے ارد گرد بھنبھناتی رہی۔ اسے اپنے آپ میں شرم سی محسوس ہونے لگی۔ جنگجو یوں نہیں کیا کرتے۔ خالد جب حضرت عمر کی للکار پر واپس آرہا تھا تو اس بلندی سے اس کی نظر میدان جنگ پر پڑی۔ وہاں لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ شاید ان میں بے ہوش زخمی بھی ہوں گے۔ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے نہ ابھی مسلمان آگے بڑھے تھے نہ اہل قریش۔ خالد کو ابو سفیان کی بیوی ہندہ نظر آئی۔ وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے دوڑے چلی آرہی تھی۔ اس کے اشارے پر قریش کی وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ آئی تھیں اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئیں۔ ہندہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی۔ وہ اونچے قد کی اور فربہی مائل جسم کی پہلوان قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی۔ کوئی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی نظر آتی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اس لاش کو سیدھا کر کے دیکھتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا کہ وہ حمزہ کی لاش تلاش کریں۔ اسے حمزہ کی لاش مل گئی۔ ہندہ بھوکے درندے کی طرح لاش کو چیرنے پھاڑنے لگی۔ اس نے لاش کے کچھ اعضاء کاٹ کر پرے پھینک دیے۔ اس نے دوسری عورتوں کو دیکھا جو اس کے قریب کھڑی تھیں۔
جاری ہے!!!! Next Episode 7 Prevouse Episode 5
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ