شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی پہلی قسط ۔
ہم نے یہ ایک تاریخی سلسلہ شروع کیا ہے جو کہ ہم مسلمانوں کے ایک رئیل اور تاریخی ہیرو کی زندگی پر مشتمل ہے جنہیں دنیا آج بھی حضرت خالد بن ولید کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ عنوان ہم نے عنائت اللہ صاحب مرحوم “التمش” کی کتاب “شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam” سے لیا ہے۔ ہم یہ سلسلہ قسطوں کی صورت میں ہر جمعہ کے دن پوسٹ کریں گے “اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک عنائت اللہ صاحب کی اخروی زندگی آسان بنائے آمین”
(1) shamsheer e beniyam
وہ مسافرعرب کے صحرا میں اکیلا چلا جا رہا تھا۔
8 ہجری کے زمانے عرب کا وہ علاقہ جہاں مکہ اور مدینہ واقع ہے بڑا ہی خوفناک صحرا ہوا کرتا تھا۔ جلستا اور انسانوں کو جلساتا ہوا ریگزار۔ ایک تو صحرا کی اپنی صعوبتیں تھیں دوسرا خطرہ رہزنوں کا تھا۔ مسافر قافلوں کی صورت میں سفر کیا کرتے تھے۔ لیکن یہ مسافر اکیلا چلا جا رہا تھا۔ وہ اعلی نسل کے جنگی گھوڑے پر سوار تھا۔ اس کی زرہ گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ اور اس کی کمر سے تلوار لٹک رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں برچھی تھی۔ اس زمانے میں مردوں کے قد دراز، سینے چوڑے اور جسم گٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ یہ اکیلا مسافر بھی انہیں مردوں میں سے تھا لیکن جس انداز سے وہ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا تھا۔ اس سے پتا چلتا تھا کہ وہ شاہسوارہے کوئی معمولی آدمی نہیں۔ اس کے چہرے پر خوف کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا۔ کہ رہزن اسے لوٹ لیں گے اس سے اتنی اچھی نسل کا گھوڑا چھین لیں گے اور اسے پیدل سفرکرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے چہرے پر جو تاثر تھا وہ قدرتی نہیں تھا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا، یادوں سے دل بہلا رہا تھا یا کچھ یادوں کو ذہن میں دفن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آگے ایک گھاٹی آگئی۔ گھوڑا چڑھتا چلا گیا۔ خاصی بلندی پر جا کر زمین ہموار ہوئی۔ سوار نے گھوڑا روک کر اسے گھمایا اور رکابوں پر کھڑے ہو کر پیچھے دیکھا۔ اسے مکہ نظر نہ آیا۔ مکہ افق کے نیچے چلا گیا تھا۔ “ابو سلیمان!” اسے جیسے آواز سنائی دی ہو۔ “اب پیچھے نہ دیکھو، مکہ کوذہن سے اتار دو، تم مرد میدان ہو اپنے آپ کو دو حصوں میں نہ کٹنے دو، اپنے فیصلے پر قائم رہو، تمہاری منزل مدینہ ہے۔ اس نے مکہ کی سمت سے نظریں ہٹا لیں۔ گھوڑے کا رخ مدینہ کی طرف کیا اور باگ کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔ گھوڑا اپنے سوار کے اشارے کو سمجھتا تھا۔ نپی تلی چال چل پڑا۔ سوار کی عمر 43 سال تھی لیکن وہ اپنی عمر سے جوان لگتا تھا۔”سلیمان”اس کے بیٹے کا نام تھا۔ اس کے باپ کا نام“الولید”تھا لیکن سوار نے“خالد بن ولید”کے بجائے “ابو سلیمان” کہلانا زیادہ پسند کیا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ تاریخ اسے “خالد بن ولید” کے نام سے یاد رکھے گی اور یہ نام اسلام کی عسکری روایات اور جذبے کا دوسرا نام بن جائے گا۔ مگر 43 سال کی عمر میں جب خالد مدینے کی طرف جا رہا تھا اس وقت وہ مسلمان نہیں تھا۔ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے علاوہ وہ مسلمانوں کے خلاف دو بڑی جنگیں “جنگ اخد اور جنگ خندق” لڑ چکا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر 610ء بروز سوموار پہلی وحی نازل ہوئی اس وقت خالد کی عمر 24 سال تھی۔
اس وقت تک وہ اپنے قبیلے بنو مخزوم کی عسکری قوت کا قائد بن چکا تھا۔ بنو مخزوم کا شمار قریش کے چند ایک معزز خاندانوں میں ہوتا تھا۔ قریش کے عسکری امور اسی خاندان کے سپرد تھے۔ قریش خالد کے باپ الولید کے احکام اور فیصلے مانتے تھے۔ 24 برس کی عمر میں یہ حیثیت خالد کو بھی حاصل ہو گئی تھی مگر اس حیثیت کو ٹھکرا کر خالد ابو سلیمان مدینے کو جا رہا تھا۔ کبھی وہ محسوس کرتا جیسے اس کی ذات سے کوئی قوت اسے پیچھے کو گھسیٹ رہی ہو۔ جب وہ اس قوت کے اثر کو محسوس کرتا تواس کی گردن پیچھے کو مڑ جاتی۔ لیکن اس کی اپنی ذات سے ایک آواز اٹھتی۔ “آگے دیکھ خالد! تو ولید کا بیٹا تو ہےلیکن وہ مر گیا ہے اب تو سلیمان کا باپ ہے۔ وہ زندہ ہے۔ اس کے ذہن میں دو نام اٹک گئے “محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) جو ایک نیا دین لے کر آئے تھے اور الولید” جو خالد کا باپ تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نئے دین کا بہت بڑا دشمن تھا۔ باپ یہ دشمنی ورثے کے طور پہ خالد کے حوالے کر کے دنیا سے اٹھ گیا تھا۔ خالد کے گھوڑے نے پانی کی مشک پر اپنے آپ ہی رخ بدل لیا تھا۔ خالد نے ادھر دیکھا اسے گول دائرے میں کھجوروں کے درخت اور صحرا کے جھاڑی نما درخت نظر آئے گھوڑا ادھر ہی جا رہا تھا۔ نخلستان میں داخل ہو کرخالد گھوڑے سے کود گیا۔ عمامہ اتار کر وہ پانی کے کنارے دو زانو ہو گیا۔ اس نے پانی چلو بھر بھر کر اپنے سر پر ڈالا۔ اور دو چار چھینٹے منہ پر پھینکے۔ اس کا گھوڑا پانی پی رہا تھا۔ خالد نے اس چشمہ سے پانی پیا جو صرف انسانوں کے استعمال کے لئے تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا جنگل تھا۔ خالد نے گھوڑے کی زین اتاری اور زین کے ساتھ بندھی ہوئی چھوٹی سی ایک دری کھول کر جھاڑی نما درختوں کے جھنڈ تلے بچھائی اور لیٹ گیا۔ وہ تھک گیا تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے سو جانا چاہتا تھا۔ مگر اس کے ذہن میں یادوں کا جو قافلہ چل پڑا تھا وہ اسے سونے نہیں دے رہا تھا۔ اسے سات سال پہلے کا ایک دن یاد آیا جب اس کے عزیزوں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے میں خالد کا باپ الولید پیش پیش تھا۔ وہ ستمبر622ء کی ایک رات تھی۔ قریش نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتے میں قتل کرنے کے لئے ایسے آدمی چنے تھے جو انسانوں کے روپ میں وحشی اور درندے تھے۔ خالد قریش کے سرکردہ خاندان کا جوان تھا اس وقت اس کی عمر 37 سال تھی۔ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش میں شریک تھا لیکن وہ قتل کے لئے جانے والوں کے گروہ میں شامل نہیں تھا۔ اسے سات سال پہلے کی وہ رات گزرے ہوئے کل کی طرح یاد تھی۔
وہ اس قتل پر خوش بھی تھا اور ناخوش بھی۔ خوش اس لئے کہ اس کے اپنے قبیلے کے ہی ایک آدمی نے اس کے مذہب کو جو بت پرستی تھی باطل کہہ دیا اور اپنے آپ کو خدا کا پیغمبر کہہ دیا ایسے دشمن کے قتل پر خوش ہونا فطری بات تھی۔ اور وہ ناخوش اس لئے تھا کہ وہ اپنے دشمن کو للکار کر آمنے سامنے کی لڑائی لڑنے کا قائل تھا۔ اس نے سوئے ہوئے دشمن کو قتل کرنے کی کبھی سوچی ہی نہیں تھی۔ بہر حال اس نے اس سازش کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن قتل کی رات جب قاتل رسول خدا کو مقررہ وقت پر قتل کرنے گئے تو آپ ﷺ کا مکان خالی تھا۔ وہاں گھر کا سامان بھی نہیں تھا نہ آپ ﷺ کا گھوڑا تھا نہ اونٹنی قریش اس امید پر سوئے ہوئے تھے کہ صبح انہیں خوشخبری ملے گی کہ ان کے مذہب کو جھٹلانے اور انہیں اپنے نئے مذہب کی طرف بلانے والا قتل ہو گیا ہے۔ مگر صبح وہ ایک دوسرے کو مایوسی کے عالم میں دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ‘محمد کہاں گیا؟ رسول خدا ﷺ قتل کے وقت سے بہت پہلے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہو کر یثرب (مدینہ) کو ہجرت کر گئے تھے۔ صبح تک آپ ﷺ بہت دور نکل گئے تھے۔ خالد کے ذہن سے یادیں پھوٹتی چلی آرہی تھیں۔ ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتے ہٹتے سولہ برس دور جا نکلا 613ء کی ایک شام رسول کریم ﷺ نے قریش کے چند ایک سرکردہ افراد کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا، کھانے کے بعد رسول کریم ﷺ نے اپنے مہمانوں سے کہا۔ اے بنی عبدالمطلب! میں تمہارے سامنے جو تحفہ پیش کرنے لگا ہوں وہ عرب کا کوئی اور شخص پیش نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اللہ نے مجھے منتحب کیا ہے۔ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہیں ایک ایسے مذہب کی طرف بلاوں جو تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی آسودہ اور مسرور کر دے گا۔ اس طرح رسول خدا ﷺ نے پہلی وحی کے نزول کے تین سال بعد اپنے قریبی عزیزوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ خالد اس محفل میں نہیں تھا۔ اس کا باپ مدعو تھا۔ اس نے خالد کو مذاق اڑانے کے انداز میں بتایا تھا کہ عبدالمطلب کے پوتے محمدﷺ نے کہا ہے کہ وہ اللہ عزوجل کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عبدالمطلب قریش کا ایک سردار تھا۔ الولید نے اپنے بیٹے خالد سے کہا کہ بےشک محمد ﷺ کا خاندان اعلی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن نبوت کا دعوی اس خاندان کا کوئی فرد کیوں کرے؟ اللہ کی قسم اور ہبل اور عزی کی۔ میرے خاندان کا رتبہ کسی سے کم نہیں۔ کیا نبوت کا دعوی کر کے کوئی ہم سے اونچا ہو سکتا ہے؟
آپ نے انہیں کیا کہا ہے؟ خالد نے پوچھا! پہلے تو ہم چپ ہو گئے۔ پھر ہم سب ہنس پڑے۔ الولید نے کہا۔ لیکن محمد ﷺ کے چچازاد بھائی علی نے محمد ﷺ کی نبوت کو قبول کر لیا ہے۔
خالد اپنے باپ کی طنزیہ ہنسی کو بھولا نہیں تھا۔ خالد کو629ء کے ایک دن مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک نخلستان میں لیٹے ہوئے وہ وقت یاد آرہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جن کی نبوت کو قریش کے سردار قبول نہیں کر رہے تھے۔ اس نبوت کو لوگ قبول کرتے جارہے تھے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ بعض مفلس لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ اس سے نبی کریم ﷺ کے حوصلے میں جان آگئی اور آپ ﷺ نے اسلام کی تبلیغ تیز کر دی۔ آپ ﷺ بت پرستی کے خلاف تھے۔ مسلمان ان 360 بتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ جو کعبہ کے اندر اور باہر رکھے ہوئے تھے۔ طلوع اسلام سے پہلے عرب ایک خدا کو مانتے تھے اور پوجتے ان بتوں کو تھے انہیں وہ دیویاں اور دیوتا کہتے اور انہیں اللہ کےبیٹے اور بیٹیاں مانتے تھے۔ وہ ہر بات میں اللہ کی قسم کھاتے تھے۔ قریش نے دیکھا کہ محمد ﷺ کے جس دین کا انہوں نے مذاق اڑایا تھا وہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ تو انہوں نے آپ ﷺ کی تبلیغی سرگرمیوں کے خلاف محاذ بنا لیا اور مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔ خالد کو یاد آرہا تھا کہ اس نے اللہ کے رسول کو گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کو اکٹھا کر کے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے اور بتاتے دیکھا تھا کہ بت انہیں نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ عبادت کے لائق صرف اللہ ہے جو وحدہ لاشریک ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کے قائد قریش کے چار سردار تھے۔ ایک تو خالد کا باپ الولید تھا۔ دوسرا نبی کریم ﷺ کا اپنا چچا ابو لہب تھا۔ تیسرا ابو سفیان اور چوتھا ابوالحکم تھا، جو خالد کا چچا زاد بھائی تھا۔ مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم و تشدد اسی شخص نے کیا تھا۔ وہ جہالت کی حد تک کینہ پرور اور مسلم کش تھا۔ اسی لئے مسلمان اسے ابو جہل کہنے لگے تھے۔ یہ نام اتنا عام ہوا کہ لوگ جیسے اس کا اصل نام بھول ہی گئے ہوں۔ تاریخ نے بھی اس پستہ قد، بھینگے، اور لوہںے کی طرح مضبوط آدمی کو ابوجہل کے نام سے ہی یاد رکھا ہے۔ خالد کو یہ یادیں پریشان کرنے لگیں۔ شائد شرمسار بھی۔ قریش کے لوگوں نے رسول خدا ﷺ کے گھر میں کئی بار غلاظت پھینکی تھی۔ جہاں کوئی مسلمان اسلام کی تبلیغ کر رہا ہوتا وہاں قریش کے آدمی پہنچ جاتے اور ہلڑ مچاتے تھے۔ بد اخلاق اور دھتکارے ہوئے آدمیوں کو رسول اللہ ﷺ کو پریشان کرتے رہنے کے کام پر لگا دیا گیا تھا۔
خالد کو ایک اطمینان ضرور تھا کہ اس کے باپ نے محمد ﷺ کے خلاف ایسی کوئی گھٹیا حرکت نہیں کی تھی۔ وہ دو مرتبہ قریش کے تین چار سرداروں کو ساتھ لے کر رسول خدا ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس یہ کہنے گیا تھا کہ وہ اپنے بھتیجے (رسول خدا ﷺ) کو بتوں کی توہین اور نبوت کے دعوی سے روکے، ورنہ وہ کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا (نعوذباللہ)۔ ابو طالب نے ان لوگوں کو دونوں مرتبہ ٹال دیا تھا۔ خالد کو اپنے باپ کی بہت بڑی قربانی یاد آئی۔ عمارہ خالد کا بھائی تھا۔ وہ خاص طور پر خوبصورت نوجوان تھا۔ وہ ذہین تھا اور اس میں بانکپن تھا۔ خالد کے باپ الولید نے اپنے اتنے خوبصورت بیٹے عمارہ کو قریش کے دو سرداروں کے حوالے کیا اور انہیں کہا کہ اسے محمد(ﷺ) کے چچا ابو طالب کے پاس لے جاؤ اور اس سے کہو کہ میرا بیٹا رکھ لو اور اس کے بدلے محمد(ﷺ) ہمیں دے دو۔ خالد اپنے باپ کے اس فیصلے پر کانپ اٹھا تھا اور جب اس کا بھائی عمارہ دونوں سرداروں کے ساتھ چلا گیا تھا تو خالد تنہائی میں جا کر رویا تھا۔ ابوطالب! سرداروں نے عمارہ کو رسول اللہ ﷺ کے چچا کے آگے کر کے کہا تھا۔ اسے تم جانتے ہو؟ یہ عمارہ ابن الولید ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بنو ہاشم نے جس کے تم سردار ہو، ابھی تک اس جیسا سجیلا اور عقلمند جوان پیدا نہیں کیا۔ یہ ہم ہمیشہ کے لئے تمہارے حوالے کرنے آئے ہیں۔ اسے اپنا بیٹا بنا کے رکھو گے تو یہ تمام عمر فرمانبردار رہے گا۔ اور اگر اسے اپنا غلام بنا لو گے تو قسم ہے اللہ کی تم پر اپنی جان بھی قربان کر دے گا۔ لیکن تم اسے میرے حوالے کیوں کر رہے ہو؟ ابوطالب نے پوچھا! کیا بنو محزوم کی ماؤں نے اپنے بیٹوں کو نیلام کرنا شروع کر دیا ہے؟ کہو، اس کی کیا قیمت چاہتے ہو؟ اس کے عوض ہمیں اپنا بھتیجا محمد (ﷺ) دے دو۔ قریش کے ایک سردار نے کہا، کہ تمہارا یہ بھتیجا تمہاری رسوائی کا باعث بن گیا ہے۔ اس نے تمہارے اباواجداد کے مذہب کو رد کر کے نیا مذہب بنا لیا ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اس نے قبیلے میں آدمی کو آدمی کا دشمن بنا دیا ہے۔
تم میرے بھتیجے کو لے جا کر کیا کرو گے؟ قتل (نعوذباللہ) قریش کے دوسرے سردار نے کہا، ہم محمد(ﷺ) کو قتل کریں گے (نعوذباللہ). یہ بے انصافی نہیں ہو گی۔ تم دیکھ رہے ہو کہ ہم تمہارے بھتیجے کے بدلے تمہیں اپنا بیٹا دے رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی بے انصافی ہو گی، ابوطالب نے کہا۔ تم میرے بھتیجے کو قتل کرو گے اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں گا اور اس پر خرچ کروں گا اور اسے بہت اچھی زندگی دوں گا؟ تم میرے پاس کیسا انصاف لے کر آئے ہو؟ میں تمہیں عزت سے رخصت کرتا ہوں۔ خالد نے جب اپنے بھائی کو اپنے سرداروں کے ساتھ واپس آتے دیکھا اور سرداروں سے سنا کہ ابوطالب نے سودا قبول نہیں کیا تو خالد کو دلی مسرت ہوئی تھی۔
محمد ﷺ کا تم نے کیا بگاڑ لیا تھا، ابو سلیمان؟ خالد کی ذات سے ایک سوال اٹھا۔ اس نے خیالوں ہی خیالوں میں سر ہلایا اور دل ہی دل میں کہا، کچھ نہیں۔ بےشک محمد (ﷺ) کا جسم طاقتور ہے۔ لیکن رکانہ بن عبد یزید جیسے پہلوان کو اٹھا کر پٹخنے کے لئے صرف جسمانی طاقت کافی نہیں۔ رکانہ بن عبد یزید رسول کریم ﷺ کا چچا تھا جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ یہ عرب کا مانا ہوا پہلوان تھا۔ نامی گرامی پہلوان آئے جنہیں اس نے ایک ہی داو میں پٹخ کر اٹھنے کے قابل نہ چھوڑا، وہ وحشی انسان تھا۔ صرف لڑنا مارنا جانتا تھا۔ خالد کو وہ وقت یاد آنے لگا جب مسلمانوں کو دق کرنے والے تین چار آدمیوں نے رکانہ پہلوان کو خوب کھلایا پلایا اور اسے کہا تھا کہ، تمہارا بھتیجا محمد (ﷺ) کسی کے ہاتھ نہیں آتا۔ نہ اپنی تبلیغ سے باز آتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے اور لوگ اس کی باتوں کے جادو میں آتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا تم اسے سیدھا نہیں کر سکتے؟ کیا تم میرے ہاتھوں اس کی ہڈیاں تڑوانا چاہتے ہو؟ رکانہ نے اپنے چہرے پر مست بھینسے کا تاثر پیدا کر کے تکبر کے لہجے میں کہا۔ لاؤ اسے میرے مقابلے پے! لیکن وہ میرا نام سن کر مکہ سے بھاگ جائے گا۔ نہیں نہیں۔ میں اس سے لڑنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ اس نے اکسانے والے آدمیوں کی بات نہ مانی۔ وہ کسی پہلوان کو اپنے برابر سمجھتا ہی نہیں تھا۔ مسلمانوں کے دشمن خاموش ہو گئے۔ لیکن سوچتے رہے کہ رسول خدا ﷺ کو رکانہ کے ہاتھوں گرا کر آپ ﷺ کا تماشہ بنایا جائے۔ مکہ کے یہودی خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے دشمن تھے۔ لیکن وہ کھل کر میدان میں نہیں آتے تھے۔ وہ خوش تھے کہ اہل قریش آپس میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں۔ انہیں پتا چل گیا کہ قریش کے کچھ آدمیوں نے رکانہ پہلوان کو اکسایا ہے کہ وہ رسول خدا ﷺ کو کشتی کے لئے للکارے لیکن وہ نہیں مان رہا تھا۔ ایک روز رکانہ رات کے وقت ایک گلی میں سے گزر رہا تھا کہ اس کے قریب سے ایک بڑی حسین اور جوان لڑکی گزری۔ چاندنی رات میں لڑکی نے رکانہ کو پہچان لیا اور مسکرائی۔ رکانہ وحشی تھا۔ وہ رک گیا اور لڑکی کا راستہ روک لیا۔ کیا تم جانتی ہو کہ عورت مرد کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ رکانہ پہلوان نے پوچھا۔ کون ہو تم؟
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت اس مرد کو چاہتی ہے۔ اس جوان لڑکی نے جواب دیا۔ میں سبت بنت ارمن ہوں۔
جاری ہے!!!! Next Episode 2
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ