شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی آٹھویں قسط ۔
خالد دوڑتا ہوا وہاں گیا۔ وہ دو مسلمان خبیب بن عدی، اور زید بن الدثنہ تھے۔ خالد دونوں کو جانتا پہچانتا تھا۔ وہ اسی کے قبیلے کے افراد ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان میں حب رسولﷺ کا یہ عالم تھا کہ رسول خداﷺ پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ رسول خداﷺ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ خالد نے دیکھا کہ انہیں ایک چبوترے پر کھڑا کر دیا گیا تھا اور ارد گرد اہل قریش کا ہجوم تھا۔ ایک غیر مسلم قبیلے کے چار افراد ان کے پاس کھڑے تھے۔ دونوں کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ یہ دونوں مسلمان ہیں۔ ایک آدمی چبوترے پر کھڑا اعلان کر رہا تھا۔ یہ دونوں احد میں تمہارے خلاف لڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں تمہارے عزیز اور خون کے رشتے دار مارے گئے تھے۔ ہے کوئی جو انتقام کی آگ بجھانا چاہتا ہے ؟ انہیں خریدو انہیں اپنے ہاتھوں قتل کرو، اور خون کے بدلے خون بہاؤ۔ یہ آدمی سب سے اونچی بولی دینے والے کو ملیں گے۔ بولو؟ دو گھوڑے۔ ایک آواز آئی۔ بولو بڑھ کر بولو۔ دو گھوڑے ایک اونٹ۔ ایک اور آواز آئی۔ گھوڑوں اونٹوں کو چھوڑو۔ سونے میں بولی دو۔ سونا لاؤ، دشمن کے خون سے انتقام کی آگ بجھاؤ۔ وہ لوگ جن کے قریبی رشتے دار احد کی لڑائی میں مارے گئے تھے۔ بڑھ چڑھ کر بولی دے رہے تھے۔ خبیب اور زید چپ چاپ کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر خوف نہ تھا گھبراہٹ نہیں تھی۔ ہلکی سی بے چینی بھی نہیں تھی۔
خالد ہجوم کو چیرتا ہوا آگے چلا گیا۔ او قریش کے سردار کے جنگجو بیٹے ! خبیب نے خالد کو دیکھ کر بڑی بلند آواز سے کہا۔ تیرا قبیلہ ہم دونوں کا خون بہا کر اس مقدس آواز کو خاموش نہیں کر سکتا جو غار حرا سے اٹھی ہے۔ لا اپنے قبیلے کا کوئی نامور لڑاکا اور میرے ہاتھ کھلوادے پھر دیکھ کون کس کے خون سے پیاس بجھاتا ہے؟ میدان جنگ میں پیٹھ دکھانے والو! زید نے گرجدار آواز میں کہا۔ تم نے شکست کا انتقام ہمارے بھائیوں کی لاشوں سے لیا۔ تمہاری عورتوں نے احد کے میدان میں ہماری لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کے ہار اپنے گلوں میں لٹکائے ہیں۔ آج چار برس بعد مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو خبیب اور زید کی للکار اور طعنے صاف سنائی دے رہے تھے۔ وہ زید کے طعنے کو برداشت نہیں کر سکا تھا۔ آج چار برس بعد اسے یہ طعنہ یاد آیا تو بھی اس کے جسم میں جھر جھری لی۔
اسے احد کے میدان کا وہ منظر یاد آیا جب ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے حمزہ کی لاش کا کلیجہ نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور چبا کر اگل دیا تھا۔ اسی عورت نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ لائیں۔ ان عورتوں نے اس کے آگے کانوں اور ناکوں کا ڈھیر لگا دیا تھا۔ ہندہ نے ان کانوں اور ناکوں کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈال لیا تھا اور وہ پاگلوں کی طرح میدان میں ایک گیت گاتی اور ناچتی پھری تھی۔ اس منظر کو اس کے خاوند ابو سفیان نے پسند نہیں کیا تھا۔ خالد نے تو نفرت سے منہ پھیر لیا تھا۔ تین چار ماہ بعد دو مسلمان جن کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ اسے طعنے دے رہے تھے۔ وہ اوچھے طریقے سے انتقام لینے والا آدمی نہیں تھا۔ وہ یہاں سے کھسک آیا اور اہل قریش کے ہجوم میں گم ہو گیا۔ اسے اس قبیلے کا ایک آدمی مل گیا جو ان دو مسلمانوں کو پکڑ لایا تھا۔ کسی بھی تاریخ میں اس قبیلے کا نام نہیں ہے۔ مؤرخوں نے بھی ہشام کے حوالے سے ایک جنگجو قبیلہ لکھا ہے جو قریش کا اتحادی تھا۔
shamsheer e beniyam
خالد نے اس جنگجو قبیلے کے اس آدمی سے پوچھا کہ ان دو مسلمانوں کو کس طرح پکڑا گیا۔ خدا کی قسم! اس آدمی نے کہا۔ کہو تو ہم مسلمانوں کے رسول کو پکڑ لائیں اور نیلامی کے چبوترے پر کھڑا کر دیں۔ تم جو کام نہیں کر سکتے اس کی قسم نہ کھاؤ۔ خالد نے کہا۔ مجھے بتاؤ کہ ان دو کو کہاں سے پکڑا گیا ہے ؟ یہ چھ تھے۔ اس شخص نے جواب دیا۔ ہم نے احد میں مارے جانے والوں کا انتقام لیا ہے۔ آئیندہ بھی ایسے ہی انتقام لیتے رہیں گے۔ ہمارے قبیلے کے کچھ آدمی مدینہ میں محمد(ﷺ) کے پاس گئے اور کہا کہ وہ اسلام قبول کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا پورا قبیلہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر چکا ہے لیکن پورا قبیلہ مدینہ نہیں آسکتا۔ ہمارے ان آدمیوں نے محمد(ﷺ) سے کہا کہ ان کے ساتھ چند ایک مسلمانوں کو ان کے قبیلے میں بھیجا جائے جو پورے قبیلے کو مسلمان کرے اور پھر قبیلے کو مزہبی تعلیم دینے کیلئے کچھ عرصہ وہیں رہے۔ ہمارے یہ آدمی جب واپس آئے تو ان کے ساتھ چھ مسلمان تھے۔ ادھر ہمارے سردار شارجہ بن مغیث نے ایک سو آدمیوں کو رجیع کے مقام پر بھیج دیا۔ جب یہ چھ مسلمان رجیع پہنچے تو ہمارے ایک سو آدمیوں نے انہیں گھیر لیا۔ تم سن کر حیران ہو گے کہ یہ چھ مسلمان تلواریں نکال کر ایک سو آدمیوں سے مقابلے پر آگئے۔ ہم نے تین کو مار ڈالا اور تین کو پکڑ لیا۔ ان کے ہاتھ رسیوں سے باندھ دیئے۔ شارجہ بن مغیث نے حکم دیا تھا کہ مدینہ سے کچھ مسلمان تمہارے دھوکے میں آکر تمہارے ساتھ آگئے تو ان میں سے دو تین کو مکہ لے جانا اور انتقام لینے والوں کے ہاتھوں فروخت کر دینا۔
ہم تین کو ادھر لا رہے تھے۔ راستے میں ان میں سے ایک نے رسیوں میں سے ہاتھ نکال لیے مگر وہ بھاگا نہیں۔ وہ اتنا پھرتیلا تھا کہ اس نے ہمارے ایک آدمی کی نیام سے تلوار نکال لی کیونکہ اسے ہم نے نہتا کر رکھا تھا۔ اس نے بڑی تیزی سے ہمارے دو آدمیوں کو مار ڈالا۔ اکیلا آدمی اتنے سارے آدمیوں کا مقبلہ کب تک کرتا؟ وہ مارا گیا اور ہم نے اس کے جسم کا قیمہ بنا دیا۔ یہ دو رہ گئے۔ ہم نے ان کے ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے باندھ دیئے اور یہاں لے آئے۔ اور تم خوش ہو؟ خالد نے اسے طنزیہ کہا۔ محمد(ﷺ) کیا کہے گا اہل قریش اور ان کے دوست قبیلے اتنے بزدل ہو گئے ہیں کہ اب دھوکہ دینے اور چھ آدمیوں کو ایک سو سے مروانے پر اتر آئے ہیں؟ کیا تم نے مجھے یہ بات سناتےہوئے شرم محسوس نہیں کی؟ کیا ان ایک سو آدمیوں نے اپنے ماؤں کو شرمسار نہیں کیا؟ جن کا انہوں نے دودھ پیا ہے؟ تم نے میدان جنگ میں مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیا تھا ولید کے بیٹے! اس آدمی نے کہا۔
shamsheer e beniyam
کیا تم محمد(ﷺ) کی طاقت کا مقبلہ کر سکتے ہو؟ بدر میں ایک ہزار قریش تین سو تیرہ مسلمانوں سے مار کھا آئے تھے۔ احد کی لڑائی میں محمد(ﷺ) کے پیروکار کتنی تعداد میں تھے۔ سات سو سے کم ہوں گے زیادہ نہیں۔ قریش کتنے تھے؟ ہزاروں۔ سن خالد بن ولید۔ محمد(ﷺ) کے ہاتھ میں جادو ہے۔ جہاں جادو چلتا ہے وہاں تلوار نہیں چل سکتی۔ پھر تمہاری تلوار کس طرح چل گئی؟ خالد نے پوچھا۔ اگر محمد کے ہاتھ میں جادو ہے تو وہ تمہارے سردار شارجہ بن مغیث کے دھوکے میں کس طرح آگیا ؟ اس کے چار آدمیوں کو کس طرح مار ڈالا؟ ان دو کو محمد(ﷺ) کا جادو آزاد کیوں نہیں کرا دیتا؟ تم چیز کا مقبلہ کرنے کی جرات نہیں رکھتے اسے جادو کہہ دیتے ہو۔ ہم نے جادو کو جادو سے کاٹا ہے۔ شارجہ بن مغیث کے قبیلے کے آدمی نے کہا۔ ہمارے پاس یہودی جادوگر آئے تھے۔ انکے ساتھ تین جادوگرنیاں بھی تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام یوحاوہ ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ایک گھنی جھاڑی میں سے ایک برچھی زمین سے سرکتی ہوئی باہر آئی۔ یہ برچھی جھاڑی میں واپس چلی گئی اور سانپ بن کر واپس آئی۔ یہ سانپ واپس جھاڑی میں چلا گیا۔ مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے یہ واقعہ یاد آرہا تھا۔ وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن زہریلی بھڑوں کی طرح یہ یاد اس کے اوپر بھنبھناتی رہی۔ اسے یوحاوہ یاد آئی۔ وہ جادو گرنی تھی یا نہیں۔ اس کے حسن میں، جسم کی ساخت، مسکراہٹ اور بولنے کے انداز میں جادو تھا۔ اس نے شارجہ بن مغیث کے اس آدمی کے منہ سے یوحاوہ کا نام سنا تو وہ چونکا۔
shamsheer e beniyam
معرکہ احد کے بعد جب اہل قریش کی فوج مکہ واپس آئی تھی تو مکہ کے یہودی ایسے انداز سے ابو سفیان، خالد اور عکرمہ کے پاس آئے تھےجیسے احد میں یہودیوں کو شکست ہوئی ہو۔ یہودیوں کے سرداروں نےابو سفیان سے کہا تھا کہ مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی اور لڑائی ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی ہے، تو یہ قریش کی شکست ہے۔ یہ یہودیوں کی ناکامی ہے۔ یہودیوں نے اہل قریش کے ساتھ اس طرح ہمدردی کا اظہار کیا تھا جیسے اہل قریش کی ناکامی پر غم سے مرے جا رہے ہیں۔ انہی دنوں خالد نے پہلی بار یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کی ٹہلائی کیلئے آبادی سے باہر نکل گیا تھا۔ جب وہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں اسے یوحاوہ مل گئی۔ یوحاوہ کی مسکراہٹ نے اسے روک دیا۔ میں تسلیم نہیں کر سکتی، ولید کا بیٹا جنگ سے ناکام لوٹ آیا ہے۔ یوحاوہ نے کہا اور خالد کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی اور بولی۔ مجھے اس گھوڑے سے پیار ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے گیا۔
shamsheer e beniyam
خالد یوں گھوڑے سے اتر آیا جیسے یوحاوہ کے جادو نے اسے گھوڑے سے زمین پر کھڑا کر دیا ہو۔ اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکے۔ یوحاوہ نے کہا۔ تمہاری شکست ہماری شکست ہے۔ اب ہم تمہارا ساتھ دیں گے لیکن تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تم ہمیں اپنے ساتھ نہیں دیکھ سکو گے۔۔۔خالد نے یوں محسوس کیا جیسے اس کی زبان بند ہو گئی ہو۔ تلواروں برچھیوں اور تیروں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرنے والا خالد یوحاوہ کی مسکراہٹ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ اگر یہودی ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تو ہمارے کس کام آسکیں گے؟ خالد نے پوچھا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف تیر ہی انسان کے جسم سے پار ہو جاتا ہے؟ یوحاوہ نے کہا۔ عورت کا تبسم تم جیسے دلیر اور جری مردوں کے ہاتھوں سے تلوار گرا سکتا ہے۔ خالد اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن کچھ پوچھ نہ سکا۔ یوحاوہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیںاور پھولوں کی پنکھڑیوں ہونٹوں پر تبسم آ گیا۔ یوحاوہ آگے چل پڑی۔ خالد اسے دیکھتا رہا۔ اس کے گھوڑے نے کھر مارا تو خالد اپنے آپ میں آ گیا۔ وہ بڑی تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوا اور چل پڑا۔ کچھ دور آ کر اس نے پیچھے دیکھا۔ یوحاوہ رک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ یوحاوہ نے اپنا ہاتھ ذرا اوپر کر کے لہرایا۔
اب جب کہ دو مسلمانوں کو نیلام کیا جا رہا تھا اور خالد کو ایک آدمی نے بتایا تھا کہ ان مسلمانوں کو کس طرح دھوکے میں لایا گیا ہے اور اس آدمی نے یوحاوہ کا نام بھی لیا تو اس نے ارادہ کر لیا کہ معلوم کرے گا کہ یوحاوہ نے وہ جادو کس طرح چلایا ہے۔ اسے اپنے قبیلے کا ایک سرکردہ آدمی مل گیا۔ اس سے اسے پتا چلا کہ یہ مسلمان اہل قریش کے ہاتھ کس طرح آئے ہیں۔ تین چار سرکردہ یہودی یوحاوہ اور دو تین اور یہودیوں کو ساتھ لے کر شارجہ بن مغیث کے پاس چلے گئے۔ یہ قبیلہ تھا تو جنگجو لیکن اس پر مسلمانوں کا رعب کچھ اس طرح طاری ہو گیا تھا جیسے لوگ جادو گروں سے ڈرتے تھے۔ اس قبیلے میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ رسول اکرمﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ یہودیوں نے اپنی زمین دوز کاروائیوں کیلئے اس قبیلے کو اس لیے منتخب کیا تھا کہ وہ جنگجو قبیلہ تھا۔ یہودی بڑی دانشمند قوم تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمانوں کے جادو کا وہم پھیل گیا تو دوسرے قبیلے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔
shamsheer e beniyam
یہ یہودی اس قبیلے کے سردار شارجہ بن مغیث کے پاس گئے۔ اور اس کا وہم دور کرنے کے لئے کہ مسلمان جادوگر ہیں اسے بہت کچھ کہا۔ لیکن شارجہ بن مغیث نے تسلیم نہ کیا۔ رات کو یہودیوں کے کہنے پر شارجہ بن مغیث نے ان مہمانوں کی ضیافت کا انتظام باہر کھلے آسمان تلے کیا۔ ان یہودیوں نے اپنے ہاتھوں اپنے میزبانوں کو شراب پلائی۔شارجہ بن مغیث اور اس کے قبیلے کے چند ایک سرکردہ افراد کو جو شراب پلائی گئی اس میں یہودیوں نے کوئی سفوف سا ملا دیا تھا، پھر یہودیوں نے اپنے جادو کے کچھ شعبدے دکھائے۔ یوحاوہ نے اپنے حسن کا جادو چلایا۔ اس کا ذریعہ ایک رقص بھی تھا۔ جس میں یہ یہودنیں نیم برہنہ تھیں۔ ناچتے ناچتے ان کے جسموں پر جو ادھورے سے لباس تھے وہ بھی سرک کر زمین پر جا پڑے۔ یہودی اپنے سازندے ساتھ لے گئے تھے۔
shamsheer e beniyam
اگلے روز جب شارجہ بن مغیث کی آنکھ کھلی تو اسے محسوس ہوا جیسے وہ بڑے ہی حسین خواب سے جاگا ہو۔ اس کے خیالات بدلے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ پھر اپنے قبیلے کے دوسرے سرداروں کیساتھ یہودیوں کے پاس بیٹھا تھا۔ یہودنیں بھی وہاں موجود تھیں۔ یوحاوہ کو دیکھ کر وہ بے قابو ہو گیا۔ اس نے لپک کر یوحاوہ کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ ضروری نہیں کے دشمن کو میدان میں للکار کر اسے شکست دی جائے۔ ایک یہودی نے کہا۔ ہم مسلمانوں کو دوسرے طریقوں سے بھی ختم کر سکتے ہیں اس کا ایک طریقہ ہم تمہیں بتاتے ہیں۔ خالد کو بتایا گیا کہ ان چھ مسلمانوں کو مدینے سے دھوکے سے لانے کا یہ طریقہ یہودیوں نے بتایا تھا اور شارجہ بن مغیث نے جو آدمی ڑسول کریمﷺ کے پاس بھیجے تھے ان میں ایک یہودی بھی تھا۔ خالد مسلمانوںکو اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا لیکن اسے یہ غیر جنگی طریقے اچھے نہیں لگتے تھے۔
shamsheer e beniyam
خالد اپنے گھر گیا۔ اپنی ایک خادمہ سے کہا کہ وہ یوحاوہ یہودن کو بلا لائے۔ یوحاوہ اتنی جلدی اس کے پاس آئی جیسے وہ اس کے بلاوے کے انتظار میں قریب ہی کہیں بیٹھی تھی۔ تم نے مسلمانوں کو کامیابی سے دھوکا دیا ہے۔ خالد نے یوحاوہ سے کہا۔ اور مغیث کے قبیلے کے لوگ تمہیں جادوگرنی کہنے لگے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ مجھے پسند نہیں آیا۔ میری بات غور سے سنو خالد ! تم اپنے قبیلے کے نامور جنگجو ہو لیکن تم میں عقل کی کمی ہے۔ دشمن کو مارنا ہے ۔ تلوار سے مارو اور اسے تیکھی نظروں سے ہلاک کر دو، تیر اور تلوار چلائے بغیر دشمن کو کوئی مجھ جیسی عورت ہی مار سکتی ہے۔ آج چار برس بعد وہ جب صحرا میں تنہا جا رہا تھا۔ تو یوحاوہ کی باتیں اسے یاد آرہی تھیں۔ اس حد تک تو وہ خوش تھا کہ یہودی ان کے ساتھ تھے لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہودیوں کی دوستی میں جہاں مسلمانوں کی دشمنی ہے وہاؐں ان کے اپنے مفادات بھی ہیں۔ البتہ اس نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یوحاوہ اگر جادوگرنی نہیں تو اس کے سراپا میں جادو کا کوئی اثر ضرور ہے۔
shamsheer e beniyam
خالد کا گھوڑا مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں پھر خبیب بن عدی اور زید بن الدثنہ آگئے۔ لوگ ان کی بولیاں بڑھ بڑھ کر دے رہے تھے۔ آخر سودا ہو گیا اور قریش کے دو آدمیوں نے انہیں بہت سے سونے کے عوض خرید لیا۔ یہ دونوں آدمی ان دونوں صحابیوں کو ابو سفیان کے پاس لے گئے۔ ہم نے اپنے عقیدے سے ہٹ کر محمد(ﷺ) کے پاس چلے جانے والے ان دو آدمیوں کو اس لئے خریدا ہے کہ ان اہل قریش کے خون کا انتقام لیں جو احد کے میدان میں مارے گئے تھے۔ انہیں خریدنے والوں نے کہا۔ ہم انہیں آپ کے حوالے کرتے ہیں۔ آپ قریش کے سردار اور سالار ہیں۔ ہاں! ابو سفیان نے کہا۔ مکہ کی زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ ان دو مسلمانوں کا خون اپنی زمین کو پلا دو۔ لیکن مجھے یاد آ گیا ہے کہ یہ مہینہ جو گزر رہا ہے ہمارے دیوتاؤں عزی اور ہبل کا مقدس مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ختم ہو لینے دو۔ اگلے دن انہیں کھلے میدان میں لے جا کر لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ باندھ دینا اور مجھے بلا لینا۔
خالد نے جب ابو سفیان کا یہ حکم سنا تو وہ اس کے پاس گیا۔ مجھے آپ کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا۔ خالد نے ابو سفیان سے کہا۔ ہم دگنی اور تگنی تعداد میں ہوتے ہوئے اپنی زمین کو مسلمانوں کا خون نہیں پلا سکے تو ہمیں حق حاصل نہیں کہ دو مسلمانوں کو دھوکے سے یہاں لا کر ان کا خون بہایا جائے۔ ابو سفیان کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو دھوکا دینے والی تین چار عورتیں تھیں؟ کیا آپ اپنے دشمن سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ اہل قریش اب عورتوں کی آڑ میں بیٹھ گئے ہیں؟
shamsheer e beniyam جاری ہے!!!! Next Episode 9 Prevouse Episode 7
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ