شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی دوسری قسط ۔
اوہ! ارمن یہودی کی بیٹی۔ رکانہ نے کہا اور لڑکی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کر کے بولا، کیا میرا جسم تمہیں اتنا اچھا لگتا ہے یا میری طاقت؟ تمہاری طاقت نے مجھے مایوس کر دیا ہے۔ سبت نےپیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔تم اپنے بھتیجے محمد (ﷺ) سے ڈرتے ہو۔ کون کہتا ہے؟ رکانہ نے گرج کر پوچھا۔ سب کہتے ہیں۔ سبت نے کہا۔
پہلے محمد (ﷺ) کو گراؤ۔ میں اپنا جسم تمہیں انعام میں دوں گی۔ اللہ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی قسم!تیری بات پوری کر کے تیرے سامنے آؤں گا۔ رکانہ نے کہا۔ لیکن تم نے غلط سنا ہے کہ میں محمد (ﷺ) سے ڈرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں اپنے سے کمزور کے ساتھ لڑنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ لیکن تیری بات پوری کروں گا۔ مشہور مؤرخ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خود رکانہ پہلوان کو کشتی کے لئے للکارا تھا۔ لیکن دوسرے مؤرخ ابن الاثیر نے جو شہادت پیش کی ہے وہ صحیح ہے کہ رکانہ نے محمد ﷺ کو کشتی کیلئے للکارا اور اس نے کہا تھا : ” میرے بھائی کے بیٹے ! تم بڑے دل اور بڑی جرات والے آدمی ہو ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم جھوٹ بولنے سے نفرت کرتے ہو ۔ لیکن مرد کی جرات اور صداقت کا پتا اکھاڑے میں چلتا ہے ۔ آؤ میرے مقابلے میں اکھاڑے میں اترو ۔ اگر مجھے گرا لو تو میں تمہیں اللہ کا بھیجا ہوا نبی مان لوں گا، اللہ کی قسم! تمہارا مذہب قبول کرلوں گا۔ لیکن یہ ایک بھتیجے اور چچا کی کشتی نہیں ہو گی ۔ رسول خدا ﷺ نے رکانہ کی للکار کے جواب میں کہا۔ ایک بت پرست اور سچے دین کے ایک پیغمبر کی لڑائی ہو گی ، تو ہار گیا تو اپنا وعدہ نہ بھول جانا ۔ مکہ میں یہ خبر صحرا کی آندھی کی طرح پھیل گئی کہ رکانہ پہلوان اور محمد(ﷺ) کی کشتی ہو گی اور جو ہار جائے گا وہ جیتنے والے کا مذہب قبول کر لے گا ۔ قریش کا بچہ بچہ مردوزن اور یہودی ہجوم کر کے آ گئے ۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔ وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح ہو کر آۓ ۔ کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہو رہا تھا که قریش کشتی کو بہانہ بنا کر رسول خداﷺ کو قتل کر دیں گے۔ عرب کا سب سے زیادہ طاقتور اور وحشی پہلوان رکانه بن عبد یزید رسول کریم ﷺ کے مقابلے پہ اترا۔ اس نے رسول خدا ﷺ پر طنزیہ نظر ڈالی اور آپ ﷺ پر پھبتی کسی۔ آپ ﷺ مکمل خاموشی اور اطمینان سے رکانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے کہ وہ بے خبری میں کوئی داؤ نہ کھیل جاۓ۔
رکانہ آپ ﷺ کے ارد گرد یوں گھوما جیسے شیر اپنے شکار کے ارد گرد گھوم گیا ہو اور اب اسے کھا جائے گا۔ ہجوم رسول اکرمﷺ کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مسلمان خاموش تھے وہ دل ہی دل میں اللہ کو یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تلواروں کے دستوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔ پھر نہ جانے کیا ہوا؟ رسول اکرمﷺ نے کیاداؤ کھیلا؟ ابن الاثیر کہتا ہے کہ آپ ﷺ نے رکانہ کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ رکانہ زخمی شیر کی طرح اٹھا اور غرا کر آپ ﷺ پر حملہ آور ہوا ۔ آپ ﷺ نے پھر وہی داؤ کھیلا اور اسے پٹخ دیا۔ وہ اٹھا تو آپ ﷺ نے اسے تیسری بار پٹخا۔ بھاری بھر کم جسم تین بار پٹخا گیا تو کشتی جاری رکھنے کے قابل نہ رہا۔ رکانہ سر جھکا کر اکھاڑے سے نکل گیا۔ ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا اور مسلمان ننگی تلواریں اور برچھیاں ہوا میں لہرا لہرا اور اچھال اچھال کر نعرے لگا رہے تھے۔ چچا رکانہ۔ رسول اللہ ﷺ نے للکار کر کہا۔ اپنا وعدہ پورا کر اور یہیں اعلان کر کہ آج سے تو مسلمان ہے۔ رکانہ نے قبول اسلام سے صاف انکار کر دیا۔ یہ طاقت جسمانی نہیں تھی۔ خالد نے نخلستان میں لیٹے لیٹے اپنے آپ سے کہا۔ رکانہ کو یوں تین بار پٹخنا تو دور کی بات ہے۔ اسے کوئی پچھاڑ بھی نہیں سکا تھا ۔ رسول اکرم ﷺ کا تصور خالد کے ذہن میں نکھر آیا۔ وہ آپ ﷺ کو اچھی طرح جانتا تھا لیکن اب وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ محمد ﷺ کوئی اور تھے جنہیں وہ بچپن سے جانتا تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے جو رخ اختیار کیا تھا اس میں خالد آپ ﷺ کو نہیں پہچانتا تھا۔ نبوت کے دعوی کے بعد خالد کی آپ ﷺ کے ساتھ بول چال بند ہو گئی تھی۔ وہ آپ ﷺ کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ رکانہ کی طرح پہلوان نہیں تھا۔ وہ میدان جنگ میں لڑنے والا اور لڑنے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا۔ لیکن اس وقت مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل نہیں تھے۔
اور جب مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل ہوئے اور قریش کے ساتھ ان کا پہلا معرکہ ہوا۔ اس وقت خالد کے لئے ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہو سکا تھا۔ اس کا اسے بہت افسوس تھا۔ یہ معرکہ بدر کا تھا جس میں 313 مجاہدین اسلام نے ایک ہزار قریش کو شکست دی تھی۔ خالد دانت پیستا رہ گیا تھا۔ لیکن اس روز جب وہ اس نخلستان میں لیٹا ہوا تھا۔ اسے خیال آیا کہ تین سو تیرا نے ایک ہزار کو کس طرح سے شکست دے دی تھی؟
اس نے شکست کھا کے آنے والوں سے پوچھا تھا کہ مسلمانوں میں وہ کون سی خوبی تھی جس نے انہیں فتح یاب کیا تھا؟ خالد اٹھ بیٹھا اور انگلی سے ریت پر بدر کے میدان کے خدوخال بنا کر قریش اور مسلمانوں کی پوزیشنیں اور معرکے کے دوران دونوں کی چالوں کی لکیریں بنانے لگا۔ باپ نے اسے فن حرب و ضرب کا ماہر بنا دیا تھا۔ بچپن میں اسے گھڑ سواری سکھائی، لڑکپن میں اسے اکھڑ اور منہ زور گھوڑوں کو قابو میں لانے کے قابل بنایا۔ نوجوانی میں وہ شہسوار بن چکا تھا ، شتر سواری میں بھی وہ ماہر تھا۔ اس کا باپ ہی اس کا استاد تھا۔ اس نے خالد کو نا صرف سپاہی، بلکہ سالار بنایا تھا۔ خالد کو جنگ و جدل اتنی اچھی لگی کہ وہ لڑنے اور لڑانے کے طریقوں پر غور کرنے لگا اور جوانی میں فوج کی قیادت کے قابل ہو گیا تھا۔ اسے بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہو سکنے کا افسوس تھا اور وہ انتقام کے طریقے سوچتا رہتا تھا لیکن اب اس کی سوچوں کا دھارا اور طرف چل پڑا تھا۔ مکہ سے روانگی سے کچھ عرصہ پہلے سے وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ رسول اکرمﷺ نے رکانہ پہلوان کو تین بار پٹخا تھا۔ بدر میں آپﷺ نے محض تین سو تیرہ مجاہدین سے ایک ہزار کو شکست دی، یہ کوئی اور ہی قوت تھی لیکن بدر کے معرکے کے بعد اس کے دل میں مسلمانوں کے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔ مسلمان معرکہ بدر میں قریش کے بہت سے آدمیوں کو قیدی بنا کر لے گئے تھے۔ قریش کے سرداروں کیلئے تو یہ صدمہ تھا ہی، اس کا بہت برا اثر خالد نے قبول کیا تھا۔ اسے یاد تھا کہ جب بدر کا معرکہ لڑا جا رہا تھا اور مکہ میں کوئی خبر نہیں پہنچ رہی تھی کہ معرکہ کا انجام کیا ہوا، مکہ کے لوگ بدر کی سمت دیکھتے رہتے تھے کہ ادھر سے کوئی سوار دوڑا آئے گا اور فتح کی خبر سنائے گا۔ آخر ایک روز ایک شتر سوار آتا نظر آیا۔ لوگ اس کی طرف دوڑ پڑے۔ سوار نے عرب کے رواج کے مطابق اپنا کرتا پھاڑ دیا تھا اور وہ روتا آ رہا تھا۔ بری خبر لانے والے قاصد ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ وہ جب لوگوں کے درمیان پہنچا تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اہل قریش کو بہت بری شکست ہوئی ہے۔ جس کے عزیز رشتے دار لڑنے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر ان کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ، زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں؟ شکست خوردہ قریش پیچھے آ رہے تھے۔ مارے جانے والوں میں سترہ افراد خالد کے قبیلے بنو مخزوم کے تھے اور ان سب کے ساتھ خالد کا خون کا بڑا قریبی رشتہ تھا۔ ابو جہل بھی مارا گیا تھا۔ خالد کا بھائی جس کا نام ولید تھا جنگی قیدی ہو گیا تھا۔ ابو سفیان جو کہ قریش کے سرداروں کا سردار تھا اور اس کی بیوی ہند بھی موجود تھی۔ کچھ میرے باپ اور میرے چچا کے متعلق بتا اے قاصد! ہند نے پوچھا۔ تمہارا باپ عتبہ ،علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا۔ قاصد نے کہا۔ اور تمہارے چچا شیبہ کو اکیلے حمزہ نے قتل کیا ہے اور تمہارا بیٹا حنظلہ علی کے ہاتھوں مارا گیا۔
ابوسفیان کی بیوی ہند نے پہلے تو علی اور حمزہ کو بلند آواز سے برا بھلا کہا پھر بولی۔ اللہ کی قسم میں اپنے باپ اور اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے خون کا بدلہ لوں گی۔ ابوسفیان پر خاموشی طاری تھی۔ خالد کا خون کھول رہا تھا۔ قریش کے ستد آدمی مارے گئے تھے۔ اور جو جنگی قیدی ہوئے تھے ان کی تعداد بھی اتنی ہی تھی۔ خالد اٹھا دری جھاڑ کر لپیٹی اور گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ کر سوار ہوا۔ اور مدینے کی سمت چل پڑا اس نے ذہن کو یادوں سے خالی کر دینا چاہا۔ لیکن اس کا ذہن مدینہ پہنچ جاتا۔ جہاں رسول اللہ ﷺ تھے۔ اور جو تبلیغ اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔ آپ ﷺ کا خیال آتے ہی اس کا ذہن پیچھے چلا جاتا۔ اور اسے وہ منظر دکھتا جس کے خالق حضور ﷺ تھے۔ اس کے ذہن میں ہند کے الفاظ آئے جو اس نے اپنے خاوند ابو سفیان سے کہے تھے۔ میں اپنے باپ اور چچا کو بھول سکتی ہوں، ہند نے کہا تھا۔ کہ میں اپنے لخت جگر حنظلہ کو بھی بھول جاؤں؟ ماں اپنے بیٹے کو کیسے بھول سکتی ہے؟ اللہ کی قسم! میں محمد(ﷺ) کو اپنے بیٹے کا خون کبھی معاف نہیں کروں گی۔ یہ لڑائی محمد(ﷺ) نے کرائی ہے۔ میں حمزہ اور علی کو نہیں بخشوں گی۔ وہ میرے باپ، میرے چچا اور میرے بیٹے کے قاتل ہیں۔ میرے خون کو صرف میرے بیٹے کا قتل گرما رہا ہے۔ ابو سفیان نے کہا تھا کہ مجھ پر میرے بیٹے کے خون کا انتقام فرض ہو گیا ہے۔ میں سب سے پہلے یہ کام کروں گا کہ محمد(ﷺ) کے خلاف زبردست فوج تیار کر کے اسے آئیندہ لڑنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔ مشہور مؤرخ اور وقائع نگار واقدی لکھتا ہے کہ اگلے ہی روز ابوسفیان نے تمام سرداروں کو بلایا۔ ان میں زیادہ تعداد ان سرداروں کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ اور ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی عزیز جنگ میں مارا گیا تھا۔ سب انتقام کا ارادہ لے کر اکٹھے ہوئے۔ کیا مجھے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت ہے؟ ابوسفیان نے کہا۔ میرا اپنا جوان بیٹا مارا گیا ہے۔ اگر میں انتقام نہیں لیتا تو مجھے جینے کا کوئی حق نہیں۔ سب ایک ہی بار بولنے لگے۔ وہ اس پر متفق تھے کہ مسلمانوں سے بدر کی شکست کا بدلہ لیا جائے۔
لیکن آپ میں سے کوئی بھی اپنے گھر نہ بیٹھا رہے۔ خالد نے کہا۔ بدر میں ہم صرف اس لئے ذلت میں گھرے کہ سردار گھروں میں بیٹھے رہے اور ان لوگوں کو لڑنے بھیج دیا جو قریش کی عظمت کو نہیں سمجھتے تھے۔
کیا میرے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا؟ خالد کے چچا زاد بھائی عکرمہ جو ابو جہل کا بیٹا تھا۔ برہم ہوتے ہوئے کہا۔ کیا صفوان بن امیہ کے باپ کو بھی اپنے قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا؟ تم کہاں تھے؟
الولید کے بیٹے! ہم یہاں ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے اکٹھے نہیں ہوئے۔ ابو سفیان نے کہا۔ خالد! تمہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہئے تھی جس سے کوئی اپنی بےعزتی محسوس کرے۔
ہم میں سے کوئی بھی عزت والا نہیں رہا۔ خالد نے کہا۔ ہم سب اس وقت تک بےعزت رہیں گے جب تک ہم محمد (ﷺ) اور اس کے چیلوں کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کر دیتے۔ مجھے اپنے گھوڑے کے سموں کی قسم ! میرے خون کی گرمی نے میری آنکھیں جلا دی ہیں۔ ان آنکھوں کو مسلمانوں کا خون ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ اب سردار آگے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ میں میدانِ جنگ میں کہاں ہوں گا۔ لیکن جنگ میں ہمارا جو سردار ہو گا میں اس کے حکم کا پابند رہوں گا اور اگر میں سمجوں گا کہ مجھے سردار نے ایسا حکم دیا ہے جو ہمیں نقصان دے گا تو میں ایسا حکم نہیں مانوں گا۔ سب نے متفقہ طور پر ابو سفیان کو اپنا سردار مقرر کیا۔ اس سے ایک روز پہلے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ فلسطین سے مکہ واپس آیا تھا۔ یہ تجارتی قافلہ تھا۔ مکہ کے باشندوں خصوصاً قریش کے ہر خاندان نے اس تجارت میں حصہ ڈالا تھا۔ اس قافلے میں کم و بیش ایک ہزار اونٹ تھے اور جو مال گیا تھا اس کی مالیت پچاس ہزارا دینار تھی۔ قافلے کا سردار ابو سفیان تھا جس نے پچاس ہزار پر پچاس ہزار دینار منافع کمایا تھا۔ قافلے سے واپسی کا راستہ مدینہ سے گزرتا تھا۔ مسلمانوں کو پتا چل گیا۔ انہوں نے پورے قافلے کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مقام پر قافلہ کو گھیرے میں لے لیا لیکن وہ زمین ایسی تھی کہ ابو سفیان نے ایک ایک آدمی اور ایک ایک اونٹ کوزمین کے اونچے نیچے خدوخال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرے سے نکال دیا تھا۔ خالد کا گھوڑا خراماں خراماں مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا مگر خالد کا ذہن پیچھے کو سفر کر رہا تھا۔ اسے اس وقت کا جب قریش انتقام کی سکیم بنانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے ایک ایک لفظ جو کسی نے کہا تھا سنائی دے رہا تھا۔ اگر تم نے اپنی سرداری مجھے دی ہے تو میرے ہر فیصلے کی پابندی تم پر لازم ہے۔ ابو سفیان نے کہا۔
میرا پہلا فیصلہ یہ ہے کہ میں نے ابھی پچاس ہزار دینار منافع سب میں تقسیم نہیں کیا۔ وہ میں تقسیم نہیں کروں گا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں استعمال ہو گا۔ مجھے اور میرے خاندان کو یہ فیصلہ منظور ہے۔ سب سے پہلے خالد نے کہا۔ پھر منظور ہے، ایسا ہی کرو، منظور ہے کی آوازیں اٹھیں۔ میرا دوسرا حکم یہ ہے۔ ابو سفیان نے کہا کہ۔ جنگِ بدر میں ہمارے جو آدمی مارے گئے ہیں ان کے لواحقین آہ و زاری کر رہے ہیں۔ میں نے مردوں کو دھاڑیں مارتے اور عورتوں کو بین کرتے سنا ہے۔ اللہ کی قسم ! جب آنسو بہہ جاتے ہیں تو انتقام کی آگ سرد ہو جاتی ہے۔ آج سے بدر کے مقتولین پر کوئی نہیں روئے گا۔۔۔ ،، اور میرا تیسرا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں نے بدر کی لڑائی میں ہمارے جن آدمیوں کو قید کیا ہے ان کی رہائی کیلئے کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔ تم جانتے ہو کہ مسلمانوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ان کے درجے مقرر کر دیے ہیں اور ان کا فدیہ ایک ہزار سے چالیس درہم مقرر کیا ہے۔ ہم مسلمانوں کو ایک درہم بھی نہیں دیں گے۔ یہ رقم ہمارے ہی خلاف استعمال ہو گی۔
خالد کو گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھے اور مدینہ کی طرف جاتے ہوئے جب وہ لمحے یاد آ رہے تھے۔ تو اس کی مٹھیاں بند ہو گئیں۔ غصے کی لہر اس کے سارے وجود میں بھر گئی۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب بھی اس کے اندر غصہ بیدار ہو گیا تھا۔ اسے غصہ اس بات پہ آیا کہ اجلاس میں طے تھا کہ مسلمانوں کے پاس مکہ کا کوئی آدمی اپنے قیدی کو چھڑانے مدینہ نہیں جائے گا لیکن ایک آدمی چوری چھپے مدینہ چلا جاتا اور اپنے عزیز رشتے دار کو رہا کرا لاتا۔ ابو سفیان نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ خالد کا اپنا ایک بھائی جس کا نام ولید تھا مسلمانوں کے پاس جنگی قیدی تھا اگر اس وقت تک قریش اپنے بہت سے قیدی رہا نہ کرا لائے ہوتے تو خالد اپنے بھائی کی رہائی کیلئے کبھی نہ جاتا۔ اسے اپنے بھائیوں نے مجبور کیا تھا کہ ولید کی رہائی کیلئے جائے۔ خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اپنے وقار کو ٹھیس پہنچانے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا لیکن اسے خیال آیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ رسول کریمﷺ بھی اسی کے قبیلے کے تھے اور آپﷺ کے پیروکار یعنی جو مسلمان ہو گئے تھے وہ بھی قریش اور اہل مکہ سے تھے۔ وہ آسمان سے نہیں اترے تھے۔ وہ اتنے جری اور دلیر تو نہیں تھے کہ تین سو تیرہ کی تعداد میں ایک ہزار کو شکست دے سکتے۔ اب ان میں کیسی قوت آ گئی ہے کہ وہ ہمیں نیچا دکھا کر ہمارے آدمیوں کی قیمتیں مقرر کر رہے ہیں؟
جاری ہے!!!! Next Episode 3 Prevouse Episode 1
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ