شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی تیسری قسط ۔
انھیں ایک نظر دیکھوں گا۔ خالد نے سوچا تھا۔ محمد(ﷺ) کو غور سے دیکھوں گا۔ اور وہ اپنے بھائی ہشام کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ چار ہزار درہم باندھ لیے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ بنو مخزوم کے سردار الولید کے بیٹے کا فدیہ چار ہزار درہم سے کم نہیں ہو گا. ایسا ہی ہوا۔۔۔ اس نے مسلمانوں کے ہاں جا کر اپنے بھائی کا نام لیا تو ایک مسلمان نے جو قیدیوں کی رہائی اور فدیہ کی وصولی پر معمور تھا۔ کہا کہ چار ہزار درہم ادا کرو۔ ہم فدیہ میں کچھ رعایت چاہتے ہیں۔ خالد کے بھائی ہشام نے کہا۔ تم لوگ آخر ہم میں سے ہو۔ کچھ پرانے رشتوں کا خیال کرو۔ اب ہم تم میں سے نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے کہا۔ ہم اللہ کے رسولﷺ کے حکم کے پابند ہیں۔ کیا ہم تمہارے رسولﷺ سے بات کر سکتے ہیں؟ ہشام نے پوچھا۔ ہشام! ! خالد نے گرج کر کہا۔ میں اپنے بھائی کو اپنے وقار پر قربان کر چکا تھا ، مگر تم مجھے ساتھ لے آئے۔ یہ جتنا مانگتے ہیں اتنا ہی دے دو۔ میں محمدﷺ کے سامنے جا کر رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا۔ اس نے درہموں سے بھری تھیلی مسلمانوں کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا۔ گن لو اور ہمارے بھائی کو ہمارے حوالے کر دو۔ رقم گنی جا چکی تو ولید کو خالد ہشام کے حوالے کر دیا گیا۔ تینوں بھائی اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ولید سے پوچھا کہ ان کی شکست کا باعث کیا تھا؟ انہیں توقع تھی کہ ولید جو ایک جنگجو خاندان کا جوان تھا۔ انہیں جنگی فہم و فراست اور حرب و ضرب کے طور طریقوں کے مطابق مسلمانوں کی جنگی چالوں کی خوبیاں اور اپنی خامیاں بتائے گا مگر ولید کا انداز ایسا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس پر کوئی پر اسرار اثر ہو۔ ولید کچھ تو بتاؤ۔ خالد نے اس سے پوچھا۔ ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے۔ قریش کے تمام سردار اگلی جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہم ارد گرد کے قبائل کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں اور وہ مکہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ سارے عرب کو اکٹھا کر لو خالد۔ ولید نے کہا۔ تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکو گے۔ میں نہیں بتا سکتا کہ محمدﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا ان کا نیا عقیدہ سچا یا کیا بات ہے کہ میں نے ان کا قیدی ہوتے ہوئے بھی انہیں ناپسند نہیں کیا۔ پھر تم اپنے قبیلے کے غدار ہو۔ ہشام نے کہا۔ غدار ہو یا تم پر ان کا جادو اثر کر گیا ہے۔ وہ یہودی پیشوا ٹھیک کہتا تھا کہ محمدﷺ کے پاس کوئی نیا عقیدہ اور نیا مذہب نہیں، اس کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے۔
جادو ہی تھا ورنہ بدر میں قریش شکست کھانے والے نہیں تھے۔ خالد نے کہا۔ ولید جیسے ان کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور وہ مڑ مڑ کر مدینہ کی طرف دیکھتا تھا۔ مدینہ سے کچھ دور ذی ا لحلیفہ نام کی ایک جگہ ہوا کرتی تھی۔ تینوں بھائی وہاں پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ رات گزارنے کیلئے وہ وہیں رہ گئے۔ صبح آنکھ کھلی تو ولید غائب تھا۔ اس کا گھوڑا بھی وہاں نہیں تھا۔ خالد اور ہشام سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ ولید واپس مدینہ چلا گیا ہے، انھوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی اثر تھا یہ اثر مسلمانوں کا ہی ہو سکتا تھا۔ دونوں بھائی مکہ آ گئے۔ چند دنوں بعد انہیں مکہ میں ولید کا زبانی پیغام ملا کہ اس نے محمدﷺ کو خدا کا سچا رسول تسلیم کر لیا ہے اور وہ آپﷺ کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ولید بن الولید رسول اکرمﷺ کے منظور نظر رہے اور انہوں نے مذہب میں بھی اور کفار کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی نام پیدا کیا۔ خالد کو اس وقت بہت غصہ آیا تھا ایک تو اس کا بھائی گیا دوسرے چار ہزار درہم گئے۔ چونکہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خونی دشمنی پیدا ہو چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے یہ رقم واپس نہ کی۔ رقم واپس نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ولید نے رسول کریمﷺ کو بتا دیا تھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور اس کیلئے بے انداز درہم و دینار اکھٹے کیے جا چکے ہیں۔
خالد مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔اسے افق سے ایک کوہان سی ابھری ہوئی نظر آنے لگی۔ خالد جانتا تھا یہ کیا ہے۔ یہ احد کی پہاڑی تھی جو مدینہ سے چار میل شمال میں ہے۔ اس وقت خالد ریت کی بڑی لمبی اور کچھ اونچی ٹیکری پر چلا جا رہا تھا۔ احد۔احد۔ خالد کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی اور اسے اپنی للکار سنائی دینے لگی۔ میں ابو سلیمان ہوں ! میں ابو سلیمان ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اسے ایک خونریز جنگ کا شور وغل اور سینکڑوں گھوڑوں کے ٹاپ اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ خالد یہ جنگ لڑنے کیلئے بیتاب تھا اور اس نے یہ جنگ لڑی۔
خالد کا ذہن پیچھے ہی ہٹتا گیا۔ چار ہی سال پہلے کا واقعہ تھا۔
مارچ 625ء (شوال3 ہجری) کے مہینے میں قریش نے مدینہ پر ہملہ کرنے کیلئے جو لشکر تیار کیا تھا وہ مکہ میں اکٹھا ہو چکا تھا اس کی کل تعداد تین ہزار تھی۔ اس میں سات سو افراد نے زرہ پہن رکھی تھی۔ گھڑ سوار دو سو کے لگ بھگ تھے اور رسد اور سامانٍ جنگ تین ہزار اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ یہ لشکر کوچ کیلئے تیار تھا۔ خالد کو ایک روز پہلے کی بات کی طرح یاد تھا کہ اس لشکر کو دیکھ کر وہ کس قدر خوش ہوا تھا۔ انتقام کی آگ بجھانے کا وقت آ گیا تھا اس لشکر کا سالارٍ اعلی ابو سفیان تھا اور خالد اس لشکر کے ایک حصے کا کمانڈر تھا۔ اس کی بہن بھی اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ چودہ عورتیں اس لشکر کے ساتھ جانے کیلئے تیار تھیں۔ ان میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی، عمرو بن العاص کی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیویاں بھی شامل تھیں۔ باقی سب گانیں بجانے والیاں تھیں۔ سب کی آواز میں سوز تھا اور ان کے ساز دف اور ڈھولک تھے۔ ان عورتوں کا جنگ میں یہ کام تھا کہ جوشیلے اور جذباتی گیت گا کر سپاہیوں کا بلند رکھیں اور ان کی یاد تازہ کرتی رہیں جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے۔ خالد کو افریقہ کا ایک حبشی یاد آیا جس کا نام وحشی بن حرب تھا۔ وہ قریش کے ایک سردار جبیر بن مطعم کا غلام تھا۔ وہ دراز قد اور سیاہ رو اور طاقتور تھا۔ اس نے برچھی مارنے کے فن میں شہرت حاصل کی تھی۔اور اس کے پاس افریقہ کی بنی ہوئی برچھی تھی۔ اس کا افریقی نام کچھ اور تھا۔ اسے عربی نام جبیر نے اس کے جنگی کمالات دیکھ کر دیا تھا۔ بٍن حرب! کوچ سے کچھ دیر پہلے جبیر بن مطعم نے اسے کہا ۔ مجھے اپنے چچا کے خون کا بدلہ لینا ہے۔ شاید مجھے موقع نہ مل سکے ، میرے چچا کو بدر کی لڑائی میں محمدﷺ کے چچا حمزہ نے قتل کیا تھا اگر تم حمزہ کو قتل کر دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ حمزہ میری برچھی سے قتل ہو گا یا آقا ! وحشی بن حرب نے کہا۔ یہ حبشی غلام اس طرف جا نکلا جہاں وہ عورتیں اونٹوں پر سوار ہو چکی تھیں جو اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھیں۔ ابو وسمہ! کسی عورت نے پکارا۔ یہ وحشی بن حرب کا دوسرا نام تھا۔ وہ رک گیا۔ دیکھا کہ ابو سفیان کی بیوی ہندہ اسے بلا رہی تھی۔ وہ اس کے قریب چلا گیا۔ ابو وسمہ! ہندہ نے کہا۔ حیران نہ ہو ، تجھے میں نے بلایا ہے۔ میرا سینہ انتقام کی آگ سے جل رہا ہے۔ میرا سینہ ٹھنڈا کر دے۔ حکم خاتون۔ غلام نے کہا۔ اپنے سالار کی زوجہ کے حکم پر اپنی جان بھی دے دوں گا۔ بدر میں میرے باپ کو حمزہ نے قتل کیا تھا۔ ہندہ نے کہا۔ تو حمزہ کو اچھی طرح پہچانتا ھے ، یہ دیکھ میں نے سونے کے جو زیورات پہن رکھے ہیں اگر تو حمزہ کو قتل کر دے گا تو یہ سب زیورات تیرے ہوں گے۔ وحشی بن حرب نے ہندہ کے زیورات پر نظر ڈالی تو وہ مسکرایا اور زیرٍ لب پر عزم لہجے میں بولا۔ حمزہ کو میں ہی قتل کروں گا۔
خالد کو اپنے لشکر کا کوچ یاد تھا۔ اسی رستے سے لشکر مدینہ کو گیا تھا۔ اس نے ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر لشکر کو دیکھا تھا۔ اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا۔ اسے مدینہ کے مسلمانوں پر رحم آگیا تھا لیکن اس رحم نے بھی اسے مسرت دی تھی۔ یہ خون کی دشمنی تھی، یہ اس کے وقار کا مسئلہ تھا۔ مسلمانوں کو کچل ڈالنا اس کا عزم تھا۔ جنگٍ احد کے بہت دن بعد اسے پتا چلا تھا کہ جب مکہ میں قریش اپنا لشکر جمع کر رہے تھے تو اطلاع رسولٍ کریم ﷺ کو مل گئی تھی اور جب یہ لشکر مدینہ کے راستے میں تھا تو رسول خداﷺ کو اس کی رفتار، پڑاءو اور مدینہ سے فاصلے کی اطلاعیں مسلسل ملتی رہی تھیں۔ آپﷺ کو لشکر کے مکہ سے کوچ کی اطلاع حضرت عباس نے دی تھی۔ قریش کے اس لشکر نے مدینہ سے کچھ میل دور کوہٍ احد کے قریب ایک ایسی جگہ کیمپ کیا تھا جو ہری بھری تھی اور وہاں پانی بھی تھا۔ خالد کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے دو جاسوس اس لشکر کی پوری تعداد دیکھ کر آئے ہیں اور رسول کریمﷺ کو بتا چکے ہیں۔ 21مارچ625ء کے روز رسول کریمﷺ نے اپنی فوج کو کوچ کا حکم دیا اور شیخین نامی ایک پہاڑی کے دامن میں جا خیمہ زن ہوئے۔ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار پیادہ مجاہدین تھے جن میں ایک سو نے سروں پر زرہ پہن رکھی تھی۔ مجاہدین کے پاس صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک نبیﷺ کے پاس تھا۔ اس موقع پر منافقین کے نفاق کا پہلا خطرناک مظاہرہ ہوا جو غداری کے مترادف تھا۔ مدینہ کے بعض ایسے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہیں رسولﷺ نے منافقین کہا تھا۔ کسی کے متعلق معلوم کرنا کہ وہ سچا مسلمان ہے یا منافق ، بہت مشکل تھا۔ جب مجاھدین مدینہ سے شیخین کی پہاڑی کی طرف کوچ کرنے لگے تو ایک با اثر آدمی جس کا نام عبداللہ بن ابی تھا۔ رسولﷺ کے ساتھ اس بحث میں الجھ گیا کہ قریش کا لشکر تین گنا ہے اس لیے مدینہ سے باہر جا کر لڑنا نقصان دہ ہو گا۔ آپﷺ نے مجاھدین کے دوسرے سرداروں سے رائے لی تو اکثریت نے یہ کہا کہ شہر سے باہر لڑنا زیادہ بہتر ہو گا۔ آپﷺ ا عبداللہ بن ابی کے ہی ہم خیال تھے لیکن آپﷺ نے اکثریت کا فیصلہ ہی منظور فرمایا اور کوچ کا حکم دے دیا۔ عبداللہ بن ابی نے شہر سے باہر جانے سے انکار کر دیا اس کے پیچھے ہٹنے کی دیر تھی کہ لشکر میں سے تین سو آدمی پیچھے ہٹ گئے۔ تب پتا چلا کہ یہ سب منافقین تھے اور عبداللہ ان کا سردار ہے۔ اب تین ہزار کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری صرف سات سو رہ گئی۔
رسول اللہﷺ دلبرداشتہ نہ ہوئے اور سات سو ہی کو ساتھ لے کر کوہ احد کے دامن میں شیخین کے مقام پر مجاہدین کو جنگی ترتیب میں کر دیا۔ خالد نے ایک بلند ٹیکری پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کی ترتیب دیکھی تھی اور اس نے اپنے سالار ابو سفیان کو بتا کر اپنے دستے کی جگہ طے کر لی۔ رسول اکرمﷺ نے مجاہدین کو کم و بیش ایک ہزار گز لمبائی میں پھیلا دیا۔ پیچھے وادی تھی۔ مجاہدین کے ایک پہلو کے ساتھ پہاڑی تھی لیکن دوسرے پہلو پر کچھ نہیں تھا۔ اس پہلو کو مظبوط رکھنے کیلئے رسول ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو قریب کی ایک ٹیکری پر بٹھا دیا۔ ان تیر اندازوں کے کمانڈر عبداللہ بن جبیر تھے۔ اپنی ذمہ داری سمجھ لو عبداللہ۔ ، رسول خداﷺ نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا۔ اپنے عقب کو دیکھو، دشمن ہمارے عقب میں نقل و حرکت کر سکتا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ہے۔ دشمن کے پاس گھڑ سوار زیادہ ہیں۔ وہ ہمارے پہلو پر گھڑ سواروں سے حملہ کر سکتا ہے۔ اپنے تیر اندازوں کو گھڑ سواروں پر مرکوز رکھو۔ پیادوں کا مجھے کوئی ڈر نہیں۔ تقریباً تمام مستند موئرخین جن میں ابن ہشام اور واقدی خاص طور پر قبل ذکر ہیں، لکھتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے عبداللہ بن جبیر کو واضح الفاظ میں کہا تھا ہمارا عقب صرف تمہاری بیداری اور مستعدی سے محفوظ رہے گا۔ تمہاری ذرا سی کوتاہی بھی ہمیں بڑی ذلت آمیز شکست دے سکتی ہے۔ یاد رکھو عبداللہ! اگر تم دشمن کو بھاگتے ہوئے اور ہمیں فتح یاب ہوتے ہوئے دیکھ لو، تو بھی اس جگہ سے نہ ہلنا۔ اگر دیکھو کہ ہم پر دشمن کا دباءو بڑھ گیا ہے اور تمہیں ہماری مدد کیلئے پہنچنا چاہئے تو بھی یہ جگہ نہ چھوڑنا۔ پہاڑی کی یہ بلندی دشمن کے قبضے میں نہیں جانی چاہئے۔ یہ بلندی تمہاری ہے، وہاں سے تم نیچے اس علاقے کے حکمران ہو گے جہاں تک تمہارے تیر اندازوں کے تیر پہنچیں گے۔ خالد نے مسلمانوں کی ترتیب دیکھی اور ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمان کھلے میدان کی لڑائی نہیں لڑیں گے۔ ابو سفیان کو اپنی کثیر نفری پر ناز تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لڑائی کھلے میدان میں یعنی لا محدود محاذ پر ہو تاکہ وہ اپنے پیادوں اور گھوڑوں کی افراط سے مجاہدین اسلام کو کچل ڈالے۔ خالد کو اپنے باپ نے جنگی چالوں کی تربیت بچپن سے دینی شروع کر دی تھی۔ دشمن پر بے خبری میں پہلو یا عقب سے جھپٹنا اور دشمن کو چکر دے دے کر مارنا اپنے دستوں کی تقسیم اور ان پر کنٹرول اس کی تربیت میں شامل تھا۔ جو اسے باپ نے دی تھی۔ اس نے تجربے کار سرداروں کی نگاہوں سے مجاہدین کی تربیت دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمان فن و حرب کے کمالات دکھا سکتے ہیں۔
ابو سفیان اپنی فوج کو مسلمانوں کے بلمقابل لے گیا۔ اس نے گھڑ سواروں کو مسلمانوں کے پہلوءوں پر حملہ کرنے کیلئے بھیجا۔ ایک پہلو پر خالد اور دوسرے پر عکرمہ تھا۔ دونوں کے ساتھ ایک سو گھڑ سوار تھے۔ تمام گھڑ سواروں کا کمانڈر عمر و بن العاص تھا۔ پیادوں کے آگے ابو سفیان نے ایک سو تیر انداز رکھے۔ قریش کا پرچم طلحہ بن ابو طلحہ نے اٹھا رکھا تھا۔ اس زمانے کی جنگوں میں پرچم کو دل جیسی اہمیت حاصل تھی۔ پرچم کے گرنے سے فوج کا حو صلہ ٹوٹ جاتا اور بھگدڑ مچ جاتی تھی۔ قریش نے جنگ کی ابتداء اس طرح کی کہ ان کی صفوں سے ایک شخص ابو عامر فاسق آگے ہو کر مجاھدین کے قریب چلا گیا۔ اس کے پیچھے قریش کے غلاموں کی کچھ تعداد بھی تھی۔ ابو عامر مدینہ کا رہنے والا تھا۔ وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا۔ جب رسول کریمﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تو ابو عامر نے قسم کھا لی تھی کہ وہ آپ (ﷺ) کو اور تمام مسلمانوں کو مدینہ سے نکال کر دم لے گا۔ اس پر ایک بڑی ہی حسین یہودن کا اور یہودیوں کے مال و دولت کا طلسم طاری تھا۔ یہودیوں کی اسلام دشمن کاروائیاں زمین دوز ہوتی تھیں۔ بظاہر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور فرمانبرداری کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ ابو عامر انہی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ لیکن ان یہودیوں نے اسے قریش کا دوست بنا رکھا تھا۔ اب مجاہدین قریش کے خلاف لڑنے کیلئے مدینہ سے نکلے تو ابو عامر قریش کے پاس چلا گیا۔ اس کے قبیلہ اوس کے بہت سے آدمی رسول کریمﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کر چکے تھے اور وہ قریش کے مقابلے میں صف آراء تھے۔ ابو عامر آگے چلا گیا اور مجاہدین سے بلند آواز سے مخاطب ہوا۔ رسول کریمﷺ نے اسے فاسق کا خطاب دیا تھا۔ قبیلہ اوس کے غیرت مند بہادرو!!!ا بو عامر فاسق نے کہا۔ تم مجھے یقیناً پہنچانتے ہو۔ میں کون ہوں ؟ میری بات غور سے سن لو اور۔۔۔۔،
وہ اپنی للکار پوری نہ کر پایا تھا کہ مجاہدین اسلام کی صف سے قبیلہ اوس کے ایک مجاہد کی آواز گرجی۔ او فاسق بدکار ! ہم تیرے نام پر تھوک چکے ہیں۔ خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ مجاہدین اسلام کی صف سے ابو عامر اور اس کے ساتھ گئے ہوئے غلاموں پر پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ مؤ رخ لکھتے ہیں کہ پتھر برسانے والے قبیلہ اوس کے مجاہدین تھے۔ ابو عامر اور غلام جو مجاہدین کے پتھروں کی زد میں تھےایک ایک دو دو پتھر کھا کر پیچھے بھاگ آئے۔
یہودی مدینہ میں بیٹھے لڑائی کی خبروں کا انتظار کر رہے تھے۔ جس یہودن کے طلسم میں ابو عامر گرفتار تھا وہ اپنی کامیابی کی خبر سننے کیلئے بےتاب تھی۔ اسے ابھی معلوم نہ تھا کہ اس کے حسن و جوانی کے طلسم کو مسلمانوں نے سنگسار کر دیا ہے۔
ابو عامر فاسق کے اس واقعہ سے پہلے وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ گئی تھیں لشکر کے درمیان کھڑی ہو کر سریلی آوازوں میں ایسے گیت گا رہی تھیں جن میں بدر میں مارے جانے والے قریش کا ذکر ایسے الفاظ میں ایسی طرز میں کیا گیا تھا کہ سننے والوں کا خون کھولتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان عورتوں میں سے ایک دو نے جوشیلی تقریر کی صورت میں بھی قریش کے خون کو گرمایا تھا۔
عورتوں کو پیچھے چلے جانے کا حکم ملا تو ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر ایک گیت گانا شروع کر دیا۔ اس کی آواز بلند تھی اور اس میں سوز بھی تھا۔ تاریخ لکھنے والوں نے اس گیت کے پورے اشعار قلم بند نہیں کیے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ گیت فحش تھا جس میں مرد عورت کے درپردہ تعلقات کا ذکر تھا۔ اشعار جو تاریخ میں آئے ہیں وہ اس طرح ہیں۔ ان میں جس عبدالدار کا نام آتا ہے ، یہ بنو عبدالدار ہے۔ بنو امیہ اس کی ایک شاخ تھی بنو عبدالدار قریش کا بہت اونچا خاندان تھا۔
عبدالدار کے سپوتو!
ہمارے گھرانو کے پاسبانو!
ہم رات کی بیٹیاں ہیں!
ہم تکیوں کے درمیان حرکت کرتے ہیں!
اس حرکت میں لطف اور لذت ہوتی ہے!
تم دشمن پر چڑھ دوڑے تو ہم تمہیں اپنے سینوں سے لگا لیں گی!
تم بھاگ آئے تو ہم تمہارے قریب نہیں آئیں گی!
اس کے بعد ابو عامر فاسق پر مجاہدین اسلام کی طرف سے سنگ باری ہوئی اور اس کے فوراً بعد قریش نے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کر دیئے۔ مجاہدین نے اس کے جواب میں تیر برسائے۔ خالد اپنے پہلو والے مسلمانوں کے پہلو پر حملہ کرنے کیلئے اپنے ایک سو سواروں کے ساتھ تیزی سے بڑھا اسے معلوم نہ تھا کہ بلندی پر تیر انداز چھپے بیٹھے ہیں۔ اس کے سوار بے دھڑک چلے آ رہے تھے۔ راستہ ذرا تنگ تھا۔ سواروں کو آ گے پیچھے ہو نا پڑا۔
جاری ہے!!!! Next Episode 3 Prevouse Episode 2
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ