شمشیر بے نیام shamsheer e beniyam کی ساتویں قسط ۔
کھڑی دیکھ کیا رہی ہو؟ ہندہ نے ان عورتوں سے یوں کہا جیسے وہ پاگل ہو چکی ہو۔ یہ دیکھو میں نے اپنے باپ، اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش کا کیا حال کر دیا۔ جاؤ مسلمانوں کی ہر ایک لاش کا یہی حال کر دو اور سب کے کان اور ناک کاٹ کر لے آؤ۔
اب وہ عورتیں مسلمانوں کی لاشوں کو چیرنے پھاڑنے کیلئے وہاں سے ہٹ گئیں تو ہندہ نے خنجر سے حمزہ کا پیٹ چاک کر کے اس کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں حمزہ کا کلیجہ تھا جو ہندہ نے خنجر سے کاٹ لیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا۔ حمزہ کے کلیجے کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور بری طرح اسے چبانے لگی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کلیجے کے اس ٹکڑے کو اگل دیا۔ خالد کو دور کھڑا ابو سفیان نظر آیا۔ ہندہ کی اس وحشیانہ حرکت نے خالد کا مزہ کرکرا کر دیا تھا۔ وہ جنگجو تھا، وہ صرف آمنے سامنے آکر لڑنے والا آدمی تھا۔ اپنے دشمن کی لاشوں کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف یہ کہ اسے پسند نہ آیا بلکہ اس نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ ابو سفیان کو دیکھ کر خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کے پاس جا گھوڑا روکا۔
ابو سفیان! خالد نے غصے اور حقارت کے ملے جلے لہجے میں کہا۔ کیا تم اپنی بیوی اور ان عورتوں کی وحشیانہ حرکت کو پسند کر رہے ہو؟ ابو سفیان نے خالد کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جن میں بے بسی کی جھلک تھی اور صاف پتا چلتا تھا کہ اسے لاشوں کے ساتھ اپنی بیوی کا یہ سلوک پسند نیہں۔ خاموش کیوں ہو ابو سفیان؟ تم ہندہ کو جانتے ہو خالد۔ ابو سفیان نے دبی سی آواز میں کہا۔ یہ عورت اس وقت پاگلوں سے بدتر ہے۔ اگر میں یا تم اسے روکنے کیلئے آگے بڑھے تو یہ خنجر سے ہمارے پیٹ بھی چاک کر دے گی۔ خالد ہندہ کو جانتا تھا وہ ابو سفیان کی بےبسی کو سمجھ گیا۔ ابو سفیان نے سر جھکایا گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا اور منہ پھیر کر دوسری طرف چل پڑا۔ خالد بھی اس منظر کو برداشت نہ کر سکا۔ جب ہندہ حمزہ کی لاش کا کلیجہ چبا کر اگل چکی تو اس نے پیچھے دیکھا۔ اس کے پیچھے جبیر بن مطعم کا غلام وحشی بن حرب کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں افریقہ کی بنی ہوئی وہی برچھی تھی جس سے اس نے حمزہ کو شہید کیا تھا۔ یہاں کیا کر رہے ہو بن حرب؟ ہندہ نے تحمکانہ لہجے میں اس سے کہا۔ جاؤ اور مسلمانوں کی لاشوں کے ٹکڑے کر دو۔ وحشی بن حرب بولتا بہت کم تھا۔ اس کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ بات اشاروں میں کر لی جائے۔ اس نے ہندہ کا حکم ماننے کی بجائے اپنا ہاتھ ہندہ کے آگے پھیلا دیا اور اس کی نظریں ہندہ کے گلے میں لٹکے ہوئے سونے کے ہار پر جم گئی۔
shamsheer e beniyam
ہند کو اپنا وعدہ یاد آگیا۔ اس نے وحشی سے کیا تھا کہ تم میرے باپ چچا اور بیٹے کے قاتل کو قتل کر دو تو میں نے جتنے زیورات پہن رکھے ہیں وہ تمہارے ہوں گے اور وحشی اپنا انعام لینے آیا تھا۔ ہندہ نے اپنے زیورات اتار کر وحشی بن حرب کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیے۔ وحشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ وہاں سے چل پڑا۔ ہندہ پر اس وقت فتح اور انتقام کا بھوت سوار تھا۔ ٹھہر جاؤ بن حرب۔ ہندہ نے جوشیلی آواز میں اس حبشی کو بلایا۔ وہ جب اس کے پاس آیا تو ہندہ نے کہا۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ میرا کلیجہ ٹھنڈا کر دو تو تمہیں اپنے زیورات دوں گی لیکن تم اس سے زیادہ انعام کے حق دار ہو۔ ہندہ نے قریش کی عورتوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔ تم جانتے ہو ان عورتوں میں کنیزیں کون کون سی ہیں۔ دیکھو وہ جوان بھی ہیں اور خوبصورت بھی۔ تمہیں جو کنیز اچھی لگتی ہے لے جاؤ۔ وحشی بن حرب نے اپنی عادت کی مطابق خاموشی سے چند لمحے ہندہ کے چہرے پر نظریں گاڑھیں لیکن اس کی نظریں کنیزوں کی طرف نہ گئیں۔ اس نے انکار میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔
کچھ دیر بعد میدان جنگ کی ہولناکی میں سے ہندہ کی بلند اور مترنم آواز سنائی دینے لگی۔ مؤرخ ابن ہشام کے مطابق اس نے ترنم سے جو نغمہ گایا ، اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے: ہم نے بدر کے معرکے کا حساب برابر کر لیا ہے۔۔۔ ایک خونریز معرکے کے بدلے ہم نے ایک خونریز معرکہ لڑ لیا ہے۔۔۔ عتبہ کا غم میری برداشت سے باہر تھا۔۔۔ عتبہ میرا باپ تھا۔۔۔ مجھے چچا کا بھی غم تھا اور اپنے بیٹے کا بھی غم تھا۔۔۔ اب میرا سینہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔۔۔ میں نے اپنی قسم پوری کر لی ہے۔۔۔ وحشی نے میرے دل کے درد کا مداوا کر دیا ہے۔۔۔ میں عمر بھر وحشی کی احسان مند رہوں گی۔۔۔ اس وقت تک جب تک میری ہڈیاں قبر کی مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہو جا تیں ،ابو سفیان اس بھیانک منظر کو برداشت نہ کر سکا تھا وہ پہلے ہر منہ پھیر کر جا چکا تھا۔ اس نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا کہ اسے یقین نہیں آرہا کہ محمد(ﷺ)زندہ ہیں۔ خالد نے دور سے کسی اور کو دیکھ کر سمجھ لیا ہو گا کہ وہ محمد(ﷺ) ہیں۔ کسی نے ابو سفیان سے کہا۔ ابو سفیان یہ کہہ کر کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آتا ہے۔ اس تنگ سے درے کی طرف چلا گیا جہاں سے خالد اپنے سواروں کو واپس لایا تھا۔ وہ ایسی جگہ جا کھڑا ہوا جہاں سے اسے مسلمان بیٹھے ہوئے نظر آرہے تھے۔
shamsheer e beniyam
محمد(ﷺ) کے پیروکارو! ابو سفیان نے بلند آواز سے کہا۔ کیا تم میں محمد(ﷺ) زندہ ہے؟
رسول کریمﷺ نے آواز سنی تو اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے مسلمانوں کو اشارہ کیا کہ خاموش رہیں۔ ابو سفیان نے اپنا سوال اور زیادہ بلند آواز سے دہرایا۔ اب بھی اسے کوئی جواب نہ ملا۔ کیا ابو بکر تم میں زندہ موجود ہے ؟ ابو سفیان نے بلند آواز سے پوچھا۔ اب بھی اسے کوئی جواب نہ ملا ۔ تین بار پوچھنے کے باوجود مسلمان خاموش رہے۔ کیا عمر زندہ ہے؟ ابو سفیان نے پوچھا۔ اب کے بھی مسلمانوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ابو سفیان نے گھوڑے کو دوڑایا۔ اس نے نیچے دیکھا۔ قریش کے بہت سے آدمی رسول اکرمﷺ کے متعلق صحیح خبر سننے کو بیتاب کھڑے تھے۔ اے اہل قریش! ابو سفیان نے چلا کر اعلان کیا۔ محمد(ﷺ) مر چکا ہے۔ ابو بکر و عمر بھی زندہ نہیں۔ اب مسلمان تمہارے سائے سے بھی ڈریں گے۔ خوشیاں مناؤ ، ناچو۔ اہل قریش ناچنے اور ہلڑ مچانے لگے لیکن گرجتی ہوئی ایک آواز نے انہیں خاموش کر دیا۔ اے خدا کے دشمن ! درے کی بلندی سے حضرت عمر کی آواز گونجی۔ اتنا جھوٹ نہ بول ، وہ تینوں زندہ ہیں جن کے نام لے کہ تو انہیں مردہ کہہ رہا ہے۔ اپنے قبیلے کو دھوکہ مت دے۔ تجھے تیرے گناہوں کی سزا کیلئے ہم سب زندہ ہیں۔ ابو سفیان نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور بلند آواز سے بولا۔ ابن الخطاب! تیرا خدا تجھے ہم سے محفوظ رکھے۔ کیا تو اب بھی ہمیں سزا دینے کی بات کر رہا ہے؟ کیا تو یقین سے کہتا ہے کہ محمد(ﷺ) زندہ ہے؟ اللہ کی قسم ! ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں۔ حضرت عمر ابن الخطاب کی آواز جواب میں گرجی۔ اللہ کے رسولﷺ تمہارا ایک ایک لفظ سن رہے ہیں۔ عربوں میں رواج تھا کہ ایک معرکہ ختم ہونے کے بعد دونوں فریقوں کے سردار یا سالار ایک دوسرے پر طعنوں اور پھبتیوں کے تیر برسایا کرتے تھے۔ ابو سفیان اسی دستور کے مطابق دور کھڑا حضرت عمر سے ہم کلام تھا۔ تم ہبل اور عزی کی عظمت کو نہیں جانتے۔ ابو سفیان نے کہا۔ حضرت عمر نے رسول اکرمﷺ کی طرف دیکھا۔ آپﷺ اونچا بول نہیں سکتے تھے۔ آپﷺ نے حضرت عمر کو بتایا کہ وہ ابو سفیان کو کیا جواب دیں۔ او باطل کے پجاری۔ حضرت عمر نے بلند آواز سے کہا۔ اللہ کی عظمت کو پہچان ، جو سب سے بڑا اور سب سے زیادہ طاقت والا ہے۔ ہمارے پاس ہبل جیسا دیوتا اور عزی جیسی دیوار ہے۔ ابو سفیان نے کہا۔ کیا تمہارے پاس ایسا کوئی دیوتا یا دیوی ہے؟
shamsheer e beniyam
ہمارے پاس اللہ ہے۔ رسول کریمﷺ نے حضرت عمر کی زبان سے کہلوایا۔ جو حضرت عمر نے بلند آواز سے کہا۔ تمہارا خدا کوئی نہیں۔ جنگ کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ ابو سفیان نے کہا۔ تم نے بدر میں فتح پائی تھی، ہم نے اس پہاڑی کے دامن میں تم سے انتقام لے لیا۔ اگلے سال ہم تمہیں بدر کے میدان میں ہی مقابلے کیلئے للکاریں گے۔ انشاءاللہ ! حضرت عمر نے رسول اللہﷺ کے الفاظ بلند آواز میں دہرائے۔ اب تمہارے ساتھ ہماری ملاقات بدر کے میدان میں ہی ہو گی۔ ابو سفیان نے گھوڑا موڑا گھوڑا دو قدم ہی چلا ہو گا کہ اس نے گھوڑے کو روک لیا۔ اے عمر ، ابو بکر اور محمد(ﷺ)! ابو سفیان نے اب کے ذرا ٹھری ہوئی آواز میں کہا۔ تم جب میدان سے اپنی لاشیں اٹھاؤ گے تو تمہیں کچھ ایسی لاشیں بھی ملیں گی جن کے اعضاء کٹے ہوئے ہوں گے اور انہیں چیرا پھاڑا گیا ہو گا۔ خدا کی قسم! میں نے کسی کو ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور میں نے تمہاری لاشوں کے ساتھ یہ سلوک بلکل بھی پسند نہیں کیا۔ اگر اس کا الزام مجھ پر عائد کرو گے تو میں اسے اپنی توہین سمجھوں گا۔
shamsheer e beniyam
ابو سفیان نے گھوڑا موڑا اور گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔ چلتے چلتے خالد کے گھوڑے نے اپنے آپ ہی رخ بدل لیا۔ خالد نے گھوڑے کو نہ روکا۔ وہ سمجھ گیا کہ گھوڑے نے پانی کی مشک پا لی ہے۔ کچھ دور جا کر گھوڑا نیچے اترنے لگا۔ خالد کو یہ مقام یاد آگیا۔ جنگ احد کے بعد واپسی پر قریش نے کچھ دیر یہاں پر قیام کیا تھا۔ نیچے پانی کا خاصا ذخیرہ موجود تھا۔ گھوڑا بڑا تیزی سے گھاٹی اتر گیا اور پانی پر جا رکا۔ خالد گھوڑے سے کود کر نیچے اترا اور دو زانو ہو کر چلو بھر بھر کر اپنے چہرے پر پانی پھینکنے لگا۔ ذرا سستانے کیلئے بھر بھری سی ایک چٹان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب احد کے معرکے کے بعد اہل قریش واپس آئے تھے۔ انہوں نے مدینہ سے کچھ دور آ کر قیام کیا تھا۔ اس قیام کے دوران قریش کے سردار اس بحث میں الجھ گئے تھے کہ واپس مکہ پہنچا جائے یا مسلمانوں پر ایک اور حملہ کیا جائے۔ صفوان بن امیہ نے کہا تھا۔ ہم شکست کھا کر نہیں آئے۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کی حالت بہت بری ہے تو اپنی حالت دیکھو۔ ہماری حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اب مسلمانوں کے ساتھ اتنی جلدی لڑنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے قسمت ہمارا ساتھ نہ دے۔
shamsheer e beniyam
جب یہ بحث جاری تھی تو قریش کے کچھ آدمی دو مسافروں کو پکڑ کر سرداروں کے سامنے لے آئے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ دونوں آدمی جو اپنے آپ کو مسافر کہتے ہیں ہمارے خیموں کے ارد گرد گھوم پھررہے تھے اور ہمارے چار پانچ آدمیوں سے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟ ان دونوں نے ابو سفیان اور اور دوسرے سرداروں کے سامنے بھی یہی بیان دیے کہ وہ مسافر ہیں اور کسی جگہ کا نام لے کر کہا کہ وہ ادھر جا رہے ہیں۔ ابو سفیان کے حکم سے ان کے پھٹے پرانے کپڑے جو انہوں نے پہن رکھے تھے۔ اتروائے گئے تو اندر سے خنجر اور تلواریں برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ ہتھیار چھپا کر کیوں رکھے ہیں؟ خالد کی نظر بہت تیز تھی۔ اسے شک ہوا کہ یہ مسلمانوں کے جاسوس ہیں۔ ان دونوں کو قریش کی فوج کے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور پوچھا گیا کہ انہیں کوئی پہچانتا ہے ؟ دو تین آوازیں آئیں کہ ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ یہ یثرب(مدینہ) کے رہنے والے ہیں۔ اس ایک کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ قریش کے آدمی نے اٹھ کر کہا۔ اسے میں نے اپنے خلاف لڑتے دیکھا تھا۔ تم اپنی زبان سے کہہ دوکہ تم محمد کے جاسوس ہو۔ ابو سفیان نے ان دونوں سے کہا۔ جاؤ میں تمہاری جان بخشی کرتا ہوں۔ دونوں میں سے ایک نے اعتراف کر لیا۔ جاؤ! ابو سفیان نے کہا۔ ہم نے تمہیں معاف کیا۔ دونوں جو واقعی مسلمانوں کے بھیجے ہوئے جاسوس تھےاور قریش کے عزائم معلوم کرنے آئے تھے۔ ہنسی خوشی اپنے اونٹوں کی طرف چل پڑے۔ ابو سفیان کے اشارے پر کئی ایک تیر اندازوں نے کمانوں میں تیر ڈالے اور پیچھے سے ان دونوں مسلمانوں پر چلا دیے۔ دونوں کئی کئی تیر اپنے جسم میں لے کر گرے پھر اٹھ نہ سکے۔ کیا تم اس کا مطلب سمجھتے ہو؟ ابو سفیان نے اپنے قریب کھڑے سرداروں سے کہا۔ جاسوس بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہارے نہیں۔ وہ ابھی یا کچھ ہی عرصہ بعد ہم پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فوراً مکہ کو کوچ کرو اور اگلی جنگ کی تیاری کرو۔ اگلے روز رسول اکرمﷺ کو کسی نے آکر بتایا کہ اہل قریش نے جہاں پڑاؤ کیا تھا وہاں اپنے دونوں جاسوسوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور اہل قریش مکہ کو روانہ ہوگئے ہیں۔
shamsheer e beniyam
خالد نے یہ پہلی جنگ لڑی۔ لیکن وہ سمجھتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکا ہے۔ آج چار برس بعد وہ اس سوچ میں غرق تھا کہ مسلمانوں کی یہ طاقت عام انسانوں کی طاقت نہیں تھی کوئی راز ہے جسے وہ ابھی تک نہیں پا سکا۔ اسے اہل قریش کی کچھ خامیاں یاد آنے لگیں۔ کچھ باتیں اور کچھ اعمال اسے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ اسے یہودیوں کی دو بڑی خوبصورت عورتیں بھی یاد آئیں جو اہل قریش کے سواروں میں گھل مل گئی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہودی اپنے نسوانی حسن کے جادو سے اہل قریش پر چھا جانے کی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ اسے پسند نہ تھا لیکن ان میں سےایک عورت ایک روز خالد سے ملی تو خالد نے محسوس کیا کہ یہ عورت جو کچھ کہہ رہی ہے اس میں عقل و دانش ہے۔ اس عورت کے حسن و جوانی کا اپنا ایک اثر تھا لیکن طلسم جو اس کی زبان میں تھا اس کا اثر خالد نے بھی محسوس کیا تھا۔ کچھ دیر تک یہ عورت خالد کے خیالوں پر چھائی رہی۔ اسکا گھوڑا ہنہنایا تو خالد جیسے خواب سے بیدار ہو گیا۔ وہ تیزی سے اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور پھر مدینہ کے راستے پر ہو لیا۔ ولید کا بیٹا خالد شہزادہ تھا۔ عیش و عشرت کا بھی دلدادہ تھا لیکن فن حرب و ضرب کا جنون ایسا تھا کہ عیش و عشرت کو اس جنون پر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا۔
shamsheer e beniyam
مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے وہ حسین و جمیل یہودن یاد آئی جس کا نام یوحاوہ تھا۔ اس نے اس یہودن کو ذہن سے نکال دیا لیکن یوحاوہ رانگ برنگی تتلی بن کر اس کے ذہن میں اڑتی رہی۔ خالد اسے ذہن سے نکال نہ سکا۔ خالد کے ذہن میں اڑتی ہوئی اس تتلی کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ پھر تمام رنگ سرخ ہو گئے۔ خون جیسے سرخ۔ یہ ایک بھیانک یاد تھی۔ خالد نے اسے ذہن سے اگل دینے کی بہت کوشش کی لیکن تتلی جو زہریلی بھڑ بن گئی تھی۔ اس کے ذہن سے نہ نکلی۔ یہ معرکہ احد کے تین چار ماہ بعد کا ایک واقعہ تھا۔ یہ ایک سازش تھی جس میں وہ شریک نہ تھا لیکن وہ قبیلہ قریش کا ایک بڑا ہی اہم فرد تھا۔ مسلمانوں کے خلاف کسی سازش میں شریک نہ ہونے کے باوجود وہ دعوی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس میں شریک نہ تھا۔ معرکہ احد میں زخمی ہونے والے بعض اہل قریش کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز خالد کو خبر ملی کہ مدینہ سے چھ مسلمان تبلیغ اسلام کیلئے رجیع کی طرف جا رہے تھے کہ عفان سے تھوڑی دور ایک غیر مسلم قبیلے نے انہیں روک لیا اور ان میں سے دو کو مکہ لایا گیا اور انہیں نیلام کیا جا رہا ہے۔
shamsheer e beniyam جاری ہے!!!! Next Episode 8 Prevouse Episode 6
اگر آپ کو ہماری یہ کوشش پسند آئی ہو تو لائک کیجئے کمنٹ کیجئے اور دوستوں کے ساتھ شئیر کیجئے۔ شکریہ